پاکستان نے بھارت کی جانب سے جاری فوجی طاقت میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو واضح طور پر پاکستان کے خلاف ترتیب دی گئی ہیں اور خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بھارت کی جانب سے جدید فوجی سازوسامان، ڈرونز اور اربوں ڈالر مالیت کی میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے ارادے سے متعلق سوالات کے جواب میں کہا کہ پاکستان ہر قسم کے خطرے یا صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
انہوں نے پہلگام حملے سے متعلق پاکستان پر لگائے گئے بھارتی الزامات کو بھی مسترد کر دیا، جن کی بنیاد نہ کوئی قابلِ اعتبار شواہد پر ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حقیقت ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سفیر شفقت علی خان نے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی برداشت نہیں کر سکتا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے جوہری بلیک میلنگ سے متعلق دیے گئے ریمارکس بھارت کے اپنے خوف اور عدم تحفظ کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام باہمی معاہدوں کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے اسلام آباد کے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارت کا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے مؤقف کو مزید تقویت اور جواز فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی تعطل نہیں ہے۔ دوطرفہ تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہورہے ہیں۔
شفقت علی خان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چین کے لیے اپنی مستقل اور غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا ہے اور ایک چین کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہے۔ پاکستان تبت کے مسئلے پر چین کی مکمل حمایت کرتا ہے اور عوامی جمہوریہ چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سارک کے متبادل کے طور پر کسی نئے فورم کے قیام کا خیال محض قیاس آرائی پر مبنی اور بے بنیاد ہے۔ اصل میں بھارت ہی وہ ملک ہے جس نے سارک کو غیر فعال بنا رکھا ہے۔ ایک ملک اسلام آباد میں سارک سربراہی اجلاس کے انعقاد میں رکاوٹ بنا ہوا ہے جب کہ باقی تمام رکن ممالک اس کے حامی ہیں۔
تاہم دفتر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان کسی بھی رابطے یا ملاقات کی سختی سے تردید کی ہے۔
افغانستان میں عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے کابل انتظامیہ کو روس کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی رپورٹس کا نوٹس لیا ہے۔ اسلام آباد کی جانب سے تاحال افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان اور روس کے درمیان خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں، تاہم یہ معاملہ دو خودمختار ریاستوں کے درمیان ہے۔
پاکستان نے بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے رجحان کی شدید مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ ترکیہ کے وزیر خارجہ حکان فدان جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے، تاہم دورے کی تاریخوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرپرستی میں ملوث ہے، تاہم پاکستان محاذ آرائی کے بجائے بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دیتا ہے اور خطے میں پُرامن روابط کے لیے پُرعزم ہے۔
اپنے ابتدائی بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے ان تمام پاکستانی قیدیوں اور ماہی گیروں کی فوری رہائی اور وطن واپسی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے اپنی سزا مکمل کرلی ہے اور جن کی شہریت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ترجمان نے نشاندہی کی کہ ان تمام قیدیوں کے لیے خصوصی قونصلر رسائی کی درخواست بھی کی گئی ہے جن کے پاکستانی ہونے کا یقین ہے، بشمول وہ قیدی جو جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہیں، تاکہ ان کی شہریت کی جلد از جلد تصدیق ممکن ہوسکے۔
بھارتی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اُن تمام پاکستانی قیدیوں کو قونصلر رسائی فراہم کرے جنہیں تاحال یہ سہولت میسر نہیں آ سکی۔ بھارتی فریق سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارتی حراست میں موجود تمام پاکستانی قیدیوں کی حفاظت، سلامتی اور فلاح کو یقینی بنائے۔
شفقت علی خان نے زور دیا کہ حکومتِ پاکستان انسانی بنیادوں پر ایسے معاملات کو اولین ترجیح دیتی ہے اور بھارتی جیلوں میں قید تمام پاکستانی قیدیوں کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کی اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025
Comments