امریکا اور بھارت کے تجارتی مذاکرات کار بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے قبل ٹیرف میں کمی پر مبنی معاہدہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے، تاہم باخبر ذرائع کے مطابق امریکی ڈیری اور زرعی مصنوعات پر اختلافات ابھی باقی ہیں۔
یہ کوشش ایسے وقت ہورہی ہے جب صدر ٹرمپ نے ویتنام کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت امریکی ٹیرف کو کم کرکے 46 فیصد سے 20 فیصد کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکی مصنوعات اب ویتنام میں بغیر کسٹم ڈیوٹی کے داخل ہو سکیں گی، تاہم اس معاہدے کی تفصیلات ابھی واضح نہیں کی گئیں۔
ٹرمپ نے 2 اپریل کو لبریشن ڈے پر جوابی ٹیرف کے طور پر بھارتی مصنوعات پر 26 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کی دھمکی دی تھی،تاہم مذاکرات کا وقت حاصل کرنے کے لیے اس ڈیوٹی کو عارضی طور پر 10 فیصد تک کم کر دیا گیا۔
بھارت کی وزارتِ تجارت کے ذرائع کے مطابق بھارتی وفد اب بھی واشنگٹن میں موجود ہے، حالانکہ یہ وفد گزشتہ جمعرات اور جمعہ کو شروع ہونے والے مذاکرات کے لیے ایک ہفتہ قبل پہنچا تھا۔
ذرائع کے مطابق بھارتی وفد ممکنہ طور پر معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے واشنگٹن میں طویل قیام کرسکتا ہے تاہم وہ زرعی اور ڈیری مصنوعات سے متعلق بنیادی نکات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ امریکہ میں اگائی گئی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مکئی، سویا بین، چاول اور گندم پر ٹیرف کم کرنا بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نہیں چاہتی کہ اُسے کسانوں — جو ملک میں ایک طاقتور سیاسی طبقہ ہیں — کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے والی حکومت کے طور پر دیکھا جائے۔
تاہم، ذرائع کے مطابق، بھارت اخروٹ، کرین بیری اور دیگر پھلوں کے ساتھ ساتھ طبی آلات، گاڑیوں اور توانائی سے متعلق مصنوعات پر محصولات کم کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکہ کے ایک ذرائع جو ان مذاکرات سے واقف ہے، نے بتایا کہ “اشارے ملے ہیں کہ وہ معاہدے کے قریب ہیں اور مذاکرات کاروں کو ممکنہ اعلان کے لیے تیاری کی ہدایت دی گئی ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ معاہدہ طے پانے کے لیے بھرپور اور تعمیری کوششیں کی گئی ہیں، میرا خیال ہے کہ دونوں فریق اقتصادی اہمیت سے ہٹ کر اس معاہدے کی اسٹریٹجک اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ ایسا معاہدہ کرسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے لیے محصولات میں کمی لائے گا اور امریکی کمپنیوں کو بھارت کی 1.4 ارب آبادی کی مارکیٹ میں مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں مدد دے گا۔
اسی وقت، صدر ٹرمپ نے جاپان کے ساتھ ممکنہ معاہدے پر شکوک کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جاپانی مصنوعات پر 30 فیصد یا 35 فیصد ٹیکس عائد کرسکتے ہیں جو کہ 2 اپریل کو اعلان کردہ 24 فیصد ڈیوٹی ریٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
جاپان ان علیحدہ 25 فیصد محصولات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو صدر ٹرمپ نے آٹو موبائل اور اسٹیل پر عائد کی تھیں۔
امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر محکمہ تجارت اور محکمہ خزانہ کے ترجمانوں نے بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی صورتحال پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ادھر واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے ترجمان نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
Comments