گریٹا تھنبرگ اور دیگر فلسطین نواز کارکنان کو ملک بدر کیے جانے سے قبل تل ابیب کے ہوائی اڈے منتقل کر دیا گیا ہے ۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے منگل کے روز اس کی تصدیق کی ہے۔ یہ اقدام اس وقت کیا گیا جب اسرائیلی بحریہ نے انہیں غزہ جانے سے روک دیا تھا۔

پیر کی صبح اسرائیلی فورسز نے اُس امدادی جہاز پر چڑھائی کی جو غزہ کے ساحلی علاقے کی برسوں پرانی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس جہاز پر موجود بارہ افراد پر مشتمل عملے کو تحویل میں لے لیا گیا، جن میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔

وزارت خارجہ کے مطابق یہ برطانوی پرچم بردارجہاز اسرائیل کی بندرگاہ اشدود منتقل کیا گیا، جہاں سے کارکنان کو راتوں رات بین گوریون ہوائی اڈے بھیج دیا گیا۔

وزارت کے بیان میں طنزاً کہا گیا ہے کہ سیلفی یاٹ کے چند مسافر آئندہ چند گھنٹوں میں ملک چھوڑ دیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جو افراد ملک بدری کے دستاویزات پر دستخط کرنے اور اسرائیل چھوڑنے سے انکار کریں گے، انہیں اسرائیلی قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کے لیے پیش کیا جائے گا تاکہ ملک بدری کی منظوری حاصل کی جا سکے۔

مزید یہ کہ مسافروں کے ممالک کے قونصل نمائندے ہوائی اڈے پر ان سے ملاقات کر چکے ہیں۔

کارکنان اپنے ساتھ انسانی امداد کا ایک مختصر سامان بھی لے جا رہے تھے، جس میں چاول اور بچوں کا دودھ شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد غزہ میں جاری انسانی بحران کے حوالے سے عالمی شعور اجاگر کرنا ہے، جو کئی ماہ سے جاری جنگ سے شدید متاثر ہوا ہے۔

اسرائیل نے اس سفر کو حماس کی حمایت میں ایک تشہیری حربہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق اس جہاز پر موجود معمولی مقدار میں امدادی سامان، جو ان نام نہاد مشہور شخصیات (سیلیبریٹیز) نے استعمال نہیں کیا، اسے اصل انسانی ہمدردی کے راستوں سے غزہ پہنچا دیا جائے گا۔

دوسری جانب، گریٹا تھنبرگ نے اسرائیل پر بین الاقوامی پانیوں سے انہیں اغوا کرنے کا الزام عائد کیا۔

اپنے ایک ویڈیو بیان میں جو اسرائیلی بحری کارروائی سے قبل ریکارڈ کیا گیا تھا، تھنبرگ نے کہا کہ میں اپنے تمام دوستوں، خاندان اور ساتھیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ فوری طور پر میری اور دیگر افراد کی رہائی کے لیے سویڈش حکومت پر دباؤ ڈالیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تھنبرگ کے اغوا ہونے کے دعوے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل کو گریٹا تھنبرگ کے اغوا کے علاوہ اور بھی کافی مسائل ہیں۔ وہ ایک نوجوان، ناراض شخصیت ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اسے اپنے غصے کا علاج کروانا چاہئے۔

اسرائیل نے 2007 میں حماس کے غزہ پر کنٹرول کے بعد سے ساحلی علاقے کی بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد حماس تک ہتھیاروں کی رسائی کو روکنا ہے۔

یہ ناکہ بندی مختلف تنازعات کے دوران برقرار رہی، جن میں وہ جنگ بھی شامل ہے جو 7 اکتوبر، 2023 کو حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر چڑھائی کے دوران شروع ہوئی، جس میں اسرائیل کے اعداد وشمار کے مطابق 1,200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔

دوسری جانب حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق حماس کے خلاف اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور وہاں کے 2.3 ملین رہائشیوں کے بیشتر گھروں کو ملبہ میں بدل دیا گیا ہے۔

Comments

200 حروف