دنیا

کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دے دیا

  • صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں احتجاج جاری
شائع June 9, 2025

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف تیسرے روز جاری احتجاج کو قابو میں رکھنے کیلئے کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کی فورسز کو اتوار کو لاس اینجلس کی سڑکوں پر تعینات کیا گیا۔ واضح رہے کہ ریاست کے ڈیموکریٹک گورنر گیون نیوسم نے اسے غیر قانونی قرار دیا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

لاس اینجلس پولیس نے نیوز بریفنگ میں بتایا کہ اتوار کو کم از کم 10 اور گزشتہ رات 29 افراد کی گرفتاریوں کے بعد پولیس نے مزید گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔

نیشنل گارڈ کے دستے وفاقی حکومت کی عمارتوں کی حفاظت میں مصروف رہے جب کہ لاس اینجلس میں وفاقی امیگریشن چھاپوں کے خلاف جاری مختلف احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے مابین شدید ٹکراؤ ہوا۔

لاس اینجلس پولیس نے کئی ریلیوں کو غیر قانونی اجتماعات قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ مظاہرین نے پولیس پر کنکریٹ کے ٹکڑے، بوتلیں اور دیگر اشیاء پھینکی ہیں۔

ویڈیو میں دکھایا گیا کہ اتوار کی شام شہر کے وسطی علاقے میں الفابیٹ ویمو کی چند خودکار گاڑیاں آگ لگا دی گئیں۔

لاس اینجلس پولیس کے گھڑ سوار اہلکاروں نے ہجوم کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔

ویڈیو میں مظاہرین پولیس پرشرم کرو! کے نعرے لگاتے دکھائی دیے جب کہ کچھ نے اشیاء بھی پھینکیں۔

ایک گروپ نے 101 فری وے جو شہر کے وسط کا اہم راستہ ہے بلاک کر دیا۔ متعدد مظاہرین جن میں سے کئی میکسیکو کے جھنڈے اور امریکی امیگریشن حکام کی مخالفت میں لکھے ہوئے بینرز اٹھائے ہوئے تھے شہر کے مختلف حصوں میں جمع ہوئے۔

لاس اینجلس میں سوشلزم اینڈ لبریشن پارٹی کی براجچ نے شہر ہال کے باہر سہ پہر کے جلسے کے لیے مقررین کا اہتمام کیا۔

لاس اینجلس میں پارٹی فار سوشلسزم اینڈ لبریشن کے مقامی رہنماؤں نے شہر کے ٹاؤن ہال کے سامنے سہ پہر کے وقت ایک احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا، جہاں مقررین نے امیگریشن پالیسیوں کے خلاف تقاریر کیں۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ لاس اینجلس کاؤنٹی میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکاروں کی تعیناتی کے حکم کو فوری طور پر واپس لیںکیونکہ یہ اقدام اُن کے نزدیک غیر قانونی ہے۔

ایم ایس این بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں گورنر گیون نیوسم نے کہا کہ وہ نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ نے خود ہی ایسے حالات پیدا کیے ہیں جن کی وجہ سے یہ مظاہرے ہورہے ہیں۔

نیوسم نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہے اور کیلیفورنیا کی ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

انہوں نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ اقدامات کسی صدر کے نہیں بلکہ ایک آمر کے ہوتے ہیں۔

تاہم پولیس چیف جم میکڈونل نے اتوار کی رات ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ مظاہرے قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نیشنل گارڈ کی ضرورت ہے تو میکڈونل نے کہا کہ ہم فوری طور پر اس مرحلے تک نہیں جانا چاہیں گے تاہم انہوں نے مزید کہا آج رات کے تشدد کو دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ ہمیں دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں میکڈونل پر زور دیا کہ وہ ایسا اقدام کریں۔

صدر ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ پولیس کو فوری کارروائی کرنی چاہیے اور شورش کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے تاکہ ملک کو دوبارہ عظیم بنایا جا سکے۔ وائٹ ہاؤس نے گورنر نیوسم کی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب نے ان مظاہروں میں ہونے والے فساد، تشدد اور قانون کی خلاف ورزی کو دیکھا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پہلے تقریباً 12 نیشنل گارڈ اہلکاروں نے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے عملے کے ساتھ مل کر ڈاؤن ٹاؤن لاس اینجلس میں واقع ایک وفاقی عمارت کے باہر مظاہرین کے ایک گروپ کو پیچھے دھکیل دیا۔

یو ایس ناردن کمانڈ نے کہا کہ کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے 300 ارکان کو لاس اینجلس کے 3 مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔

ان کا مشن صرف وفاقی عملے اور پراپرٹی کا تحفظ تھا۔ اتوار کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں، ٹرمپ نے مظاہرین کو پر تشدد، بغاوت کرنے والا ہجوم قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے کابینہ کے افسران کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ ایسی تمام ضروری کارروائیاں کریں تاکہ ان فسادات کو روکا جا سکے جنہیں وہ دنگے کہہ رہے ہیں۔

نیوجرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرین کو سخت تنبیہ کی جو پولیس یا نیشنل گارڈ کے اہلکاروں پر تھوکنے کی کوشش کریں گے تو ان کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کسی خاص واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اپنے ملک اور شہریوں کا خطرہ محسوس ہوا تو قانون اور امن وامان کے حوالے سے بہت سخت کارروائی کی جائے گی۔

ایف بی آئی نے پیراماونٹ میں پولیس کی گاڑیوں پر پتھر پھینکنے اور ایک وفاقی افسر کو زخمی کرنے والے مشتبہ شخص کی معلومات کیلئے 50 ہزار ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے احتجاجات کے حوالے سے سخت باتیں کیں، لیکن ابھی تک انہوں نے 1807 کے انسریکشن ایکٹ کا اطلاق نہیں کیا، جو صدر کو ملک میں فسادات اور شہری بغاوت کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا قانونی اختیار دیتا ہے۔

اتوار کو جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا یہاں کوئی بغاوت ہورہی ہے یا نہیں۔

ہائی الرٹ

وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے خبردار کیا ہے کہ پینٹاگون لاس اینجلس میں تشدد جاری رہنے کی صورت میں فعال فوجی دستے متحرک کرنے کے لیے تیار ہے اور کہا کہ قریبی کیمپ پینڈلٹن میں میرینز ہائی الرٹ ہیں۔

امریکی نارتھرن کمانڈ نے کہا کہ تقریباً 500 میرینز تعیناتی کے لیے تیار ہیں۔ لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے نیشنل گارڈ بھیج کر ٹرمپ انتظامیہ پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگایا لیکن ساتھ ہی پرتشدد مظاہرین کی بھی مذمت کی۔

کیرن باس نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نہیں چاہتی کہ لوگ اس انتشار میں مبتلا ہوں جو میرے خیال میں حکومت کی جانب سے بالکل غیر ضروری طور پر پیدا کیا جارہا ہے۔

امیگریشن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ مریکازوائس کی سربراہ ونیسا کارڈیناس نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے لیے بہانے بنارہی ہے اور جان بوجھ کر امیگریشن کے مسئلے پر تنازعات کو ہوا دے رہی ہے۔

اتوار کو ہوم لینڈ سیکیورٹی سیکرٹری کرسٹی نوم نے سی بی ایس کے پروگرام فیس دی نیشن کو بتایا کہ نیشنل گارڈ امن پسند مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تحفظ کے لیے عمارتوں کے گرد حفاظتی انتظامات فراہم کرینگے۔

ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ریکارڈ تعداد میں افراد کو ملک بدر کریں گے اور امریکہ-میکسیکو سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیں گے جس کے تحت آئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3 ہزار مہاجرین کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

لاس اینجلس جو جمہوری پارٹی کے زیر انتظام ہے کی مردم شماری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کی بڑی آبادی ہسپانوی نژاد اور غیر ملکی پیدائش رکھنے والوں پر مشتمل ہے۔

لیکن وسیع پیمانے پر نافذ کیے جانے والے اقدامات میں قانونی طور پر رہائش پذیر افراد جن میں کچھ مستقل رہائشی بھی شامل ہیں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔

اتوار کو میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شین بوم نے امیگریشن چھاپوں اور نیشنل گارڈ کی تعیناتی پر امریکی حکومت کی سخت تنقید کی۔

شین بوم نے ایک عوامی تقریب میں کہا کہ ہم امیگریشن کے مسئلے کو اس انداز میں حل کرنے سے اتفاق نہیں کرتے جب کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

اس مسئلے کو چھاپوں یا تشدد سے حل نہیں کیا جاسکتا، اس کا حل بیٹھ کر جامع اصلاحات پر کام کرنے میں ہے۔

Comments

200 حروف