آپ سوچیں گے کہ اب تک جنوبی ایشیا کو یہ سبق سیکھ لینا چاہیے تھا: ہر وہ بات مت مانیے جو آپ کا ٹی وی اینکر چیخ چیخ کر بتا رہا ہو — خاص طور پر جب وہ اینکر حقیقت کے مقابلے میں کسی جنگی فلم پر زیادہ جوش دکھا رہا ہو۔ لیکن نہیں، ہم ایک بار پھر وہیں آ پہنچے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی، جس کی بنیاد بھارت کے ”آپریشن سندور“ پر تھی، ایک اور مثال بن گئی ہے کہ کس طرح گمراہ کن معلومات اور پیدا کی گئی ہسٹیریا ( نفسیاتی بیماری) ایک قوم کی حقیقت پسندی کو ہائی جیک کر سکتی ہے۔
آئیے بنیادی نکات پر بات کرتے ہیں ۔ بھارت نے اپنے جارحانہ اقدامات کو جواز فراہم کرنے کیلئے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد دیا — ایک افسوسناک واقعہ جس میں بے گناہ جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر ایک دلچسپ بات یہ ہے: آج تک بھارت کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ بالکل کچھ نہیں۔ نہ عالمی برادری کے لیے، نہ اقوام متحدہ کے لیے اور نہ ہی اپنے اتحادیوں کے لیے، جو، اگر دیانتداری سے بات کریں تو بس تہذیباً کسی ثبوت کا انتظار کر رہے تھے — کچھ بھی ملا، جو ان الزامات کی پشت پناہی کر سکیں۔ اس کے بجائے ہمیں وہی پرانی گرج دار تقریریں ملیں، پارلیمنٹ میں سینہ کوبی اور ایک مکمل میڈیا طوفان، جہاں حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا اور بالی وڈ فلمی طرز کی مبالغہ آمیز کہانیوں نے آگے بڑھ کر عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔
اب ذکر ان مبیّنہ حملوں کا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ صرف محدود کارروائیاں نہیں تھیں — انہوں نے تو جیسے ایک ہی رات میں آدھا پاکستان فتح کر لیا۔ کراچی، لاہور، گوادر — جو چاہیں نام لے لیں — سب کچھ 24 گھنٹوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ بندرگاہیں تباہ، شہر ”روند“ دیے گئے، اور پاکستان کو ”گھٹنے ٹیکنے“ پر مجبور کر دیا گیا۔ اُن کے نیوز رومز گویا آگ لگ گئی تھی — مجازی طور پر، کم از کم — ایسی جیت پر جشن منایا جا رہا تھا کہ شاید مارول کے ”ایونجرز“ بھی شرما جائیں۔
لیکن مزے کی بات تو اب آتی ہے: اگلی صبح پاکستانی شہر… بالکل ویسے ہی نظر آئے جیسے ہمیشہ ہوتے ہیں۔ بازاروں میں چہل پہل تھی، بندرگاہیں معمول کے مطابق چل رہی تھیں اور بچے اسکول جا رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لوگوں نے ویڈیوز بھی اپلوڈ کیں — صاف، دھوپ بھرا آسمان، نہ کہیں دھواں، نہ کوئی تباہی۔ بھارتی ٹی وی پر دکھائی جانے والی ”جنگی کامیابیوں“ اور پاکستان کی زمینی حقیقت کے درمیان تضاد اتنا شدید تھا کہ سنجیدگی سے لینا مشکل ہو گیا۔
بھارت میں سوشل میڈیا، جو ابتدا میں اس خیالی فسانے پر خوش ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ حقیقت کی طرف لوٹنے لگا۔ بہت سے بھارتی شہریوں نے X (جو پہلے ٹوئٹر کہلاتا تھا) پر آ کر ہچکچاتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ ایک بار پھر دھوکہ کھا گئے۔
ایک بھارتی صارف نے پوسٹ کیا: ”میں نے واقعی یقین کر لیا تھا کہ ہمارا میڈیا ٹھیک کہہ رہا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ تباہ ہو چکی ہے، لیکن اب وہاں سے لوگ ٹک ٹاک ویڈیوز بنا رہے ہیں… مجھے اپنی سادگی پر افسوس ہو رہا ہے۔“ ایک اور نے لکھا: ”ہمارے میڈیا نے ہمیں فتح کا ایک خواب بیچا جو آخرکار ایک فلمی اسکرپٹ سے زیادہ کچھ نہ نکلا۔“ یہاں تک کہ خود بھارتیوں کے درمیان میمز گردش کرنے لگیں، جن میں اپنی ہی سادگی کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا — ایک مشہور جملہ چل پڑا: ”سندور بن گیا تندور“، کیونکہ بیانیہ جس زور سے بنایا گیا تھا، اُسی زور سے زمین بوس بھی ہو گیا۔
یہ مزاح خود ہی لکھا جا رہا ہے، مگر خطرہ حقیقی ہے۔ کیونکہ اس وقت بہت سے بھارتی اس حقیقت کا ادراک کر رہے ہیں کہ ان کے میڈیا نے انہیں زیادہ افسانے اور کم حقیقت فراہم کی ہے لیکن سیاسی اشرافیہ اب بھی اسی فارمولے پر انحصار کر رہی ہے: قوم پرستی کی جذباتی لہر کو بھڑکانا، پاکستان کو ہمیشہ ولن کے طور پر پیش کرنا اور اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانا۔ حقیقت کیا ہے؟ جنگ کے افسانے بیچنا سڑکوں کی تعمیر ومرمت، روزگار کی فراہمی یا تباہ ہوتی معیشت کو درست کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔
اب بطور پاکستانی اس پر ہماری ہنسی ایک فطری ردعمل ہے — اور یقین کریں، وہ میمز واقعی شاندار ہیں — لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہی کافی ہے تو ہم ایک بہت بڑی غلطی کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے: ہمیں اپنی بقاء اور عزت کے لیے — نہ صرف آج، بلکہ آنے والے دہائیوں کے لیے، کیا کرنا چاہیے ؟
سب سے پہلے، آئیے خود کو یاد دلائیں: ہمارے امن کی خواہش کمزوری نہیں ہے۔ لیکن بھیڑ جتنا بھی امن کے لیے روئے، ان کا مقدر اب بھی بھیڑیے کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔ ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ جب تک ہم مضبوطی سے کھڑے نہیں ہوتے، ہمیں دھمکایا جائے گا۔ اور جیسا کہ ونسٹن چرچل کا مشہور قول ہے: “ آپ کو جنگ اور ذلت کے درمیان انتخاب دیا گیا۔ آپ نے ذلت کا انتخاب کیا اور آپ کو جنگ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔“ اس سبق کو نہ بھولیں۔ یہ صرف سیاسی خود اعتمادی نہیں ہے۔ یہ ہمارے ایمان اور تاریخ میں گہرائی سے جڑی سچائی ہے۔ قرآن کا اس بارے میں واضح فرمان ہے: “ اور ان کے خلاف تیاری کرو جتنی بھی تم میں قوت ہو… جس کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کے دلوں پر دھاک بٹھا سکو…“ (سورۃ الانفال 8:60)۔
تیاری کوئی آپشن نہیں—یہ ایک حکم ہے۔ طاقت—چاہے وہ دفاع میں ہو، معیشت میں یا سفارت کاری میں—ہی اصل میں امن کی ضامن ہوتی ہے۔
اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری اصل توجہ ہونی چاہیے۔ بھارتی جنگی جنون کا مسئلہ صرف اس کی غیر سنجیدگی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ ہمیں مسلسل چوکنا رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہم کسی بھی وقت اپنی حفاظتی دیوار کمزور نہیں ہونے دے سکتے—نہ عسکری لحاظ سے، نہ معیشت کے اعتبار سے، اور نہ ہی معلوماتی محاذ پر۔ دیکھیں بھارت کے میڈیا نیٹ ورک نے کتنی تیزی سے ایک خیالی جنگی فتح کا بیانیہ گھڑا—اور کس رفتار سے لاکھوں لوگوں نے اس جھوٹ کو سچ مان لیا۔ ہمیں اس کا جواب صرف میزائلوں سے نہیں دینا، بلکہ سچائی، ٹیکنالوجی، اور ثابت قدمی کے ساتھ دینا ہے۔
ہمیں ایسے دفاعی نظام میں مسلسل سرمایہ کاری کرتے رہنا ہوگا جو حقیقتاً مؤثر ہوں — جیسے میزائل شیلڈز، سائبر وارفیئر یونٹس، اور فوری ردِعمل دینے والی ٹیمیں، جو ہمارے تیاری کے عزم میں کسی کو شک نہ رہنے دیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو اس حد تک مضبوط کریں کہ اسے کوئی ہلا نہ سکے۔ کوئی قوم اس وقت تک وقار سے کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک وہ قرض کے لیے جھکی ہو یا اہم وسائل کے لیے دوسروں کی محتاج ہو۔ صنعتی ترقی، ٹیکنالوجی میں پیش رفت، اور توانائی میں خودکفالت بھی اتنے ہی اہم دفاعی ہتھیار ہیں جتنے کہ لڑاکا طیارے یا ٹینک۔
اور اب بالکل صاف بات کر لیں: ہماری داخلی یکجہتی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی بیرونی خطرات سے نمٹنا۔ ہمیں ایک ایسی قوم بننا ہے جہاں کوئی شہری خود کو پیچھے رہ گیا نہ سمجھے — جہاں مواقع ہر طرف اور سب کے لیے ہوں، جہاں تقسیم کا علاج کیا جائے، اور جہاں اتحاد کوئی نعرہ نہیں بلکہ روزمرہ کی حقیقت ہو۔ ایک مضبوط اور متحد پاکستان وہ قلعہ ہے جسے کوئی بیرونی طاقت تسخیر نہیں کر سکتی۔
آخر میں، ہمیں میڈیا کے محاذ پر بھی مہارت حاصل کرنی ہو گی۔ آج کی دنیا میں سچ صرف اس لیے نہیں جیتتا کہ وہ سچ ہے — وہ اس لیے جیتتا ہے کیونکہ اسے مؤثر انداز میں، بلند آواز سے اور مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ ہمیں ایسے کہانی سنانے والے، صحافی اور ڈیجیٹل مجاہد درکار ہیں جو اس وقت مؤثر ردعمل دے سکیں جب ہمارے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کیا جائے — تاکہ اگلی بار جب کوئی یہ دعویٰ کرے کہ کراچی غائب ہو چکا ہے، تو دنیا اُس مضحکہ خیز دعوے پر ہنسے، اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ کہنا پڑے۔
آخرکار یہ تازہ ڈراما بھی ایک طویل کہانی کا محض ایک اور باب ہے۔ لیکن ہر باب ہمیں ایک ہی سبق دیتا ہے: امن بے قیمت ہے، لیکن اُسے طاقت کی پشت پناہی درکار ہوتی ہے۔ پاکستان نے اپنا حوصلہ، تیاری، اور عزم دکھا دیا ہے۔ اب ہمیں اسی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے — مستقل مزاجی سے، سمجھداری کے ساتھ، اور غیر متزلزل ارادے سے۔ کیونکہ ہماری بقا، عزت اور وقار کے ساتھ؟ یہ کسی سودے بازی کا حصہ نہیں بن سکتی۔
کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2025
Comments