مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے پیر کے روز وفاقی حکومت کے متنازعہ منصوبے — دریائے سندھ کے ساتھ چھ نئی نہریں تعمیر کرنے — کو اس وقت تک روکنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ صوبوں کے مابین اتفاق رائے نہ ہو جائے۔

ایک سال سے زائد عرصے کے وقفے کے بعد منعقد ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے 52ویں اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جب تک تمام فریقین باہمی مفاہمت پر نہ پہنچیں، وفاقی حکومت کوئی نیا آبی انفراسٹرکچر منصوبہ شروع نہیں کرے گی۔

اجلاس میں زور دیا گیا کہ زرعی اور آبی وسائل کی طویل المدتی حکمت عملی کے لیے بین الصوبائی تعاون ناگزیر ہے۔

کونسل نے یاد دلایا کہ 1991 کا واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ اور 2018 کی واٹر پالیسی، جو صوبوں کے آبی حقوق کا تعین کرتی ہیں، کو ہر ممکن طور پر مدنظر رکھنا ہوگا۔

اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ ایک نئی کمیٹی قائم کی جائے گی، جس میں وفاق اور تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی ملک کی زرعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصفانہ آبی تقسیم کو یقینی بنائے گی۔

کمیٹی کا مقصد 1991 کے معاہدے اور 2018 کی پالیسی میں درج اصولوں کے مطابق آبی نظم و نسق کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پانی ایک قومی اثاثہ ہے، اور آئین تقاضا کرتا ہے کہ آبی تنازعات باہمی افہام و تفہیم سے پرامن طور پر حل کیے جائیں۔

کونسل نے فروری 7، 2024 کو ایکنک کی جانب سے نئی نہروں کی تعمیر کی عارضی منظوری اور 17 جنوری 2024 کو اارسا کا پانی کی دستیابی سے متعلق سرٹیفکیٹ بھی کالعدم قرار دے دیا۔

مشترکہ مفادات کونسل نے منصوبہ بندی ڈویژن اور ارسا کو ہدایت کی کہ مستقبل میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کو یقینی بنایا جائے، تاکہ قومی یکجہتی برقرار رہے اور تمام خدشات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔

اگرچہ اجلاس کا مرکزی موضوع آبی پالیسی تھا، تاہم مشترکہ مفادات کونسل نے خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال پر بھی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی شدید مذمت کی۔

کونسل نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان امن پسند اور ذمہ دار ملک ہے، لیکن اگر قومی خودمختاری کو چیلنج کیا گیا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔

چاروں وزرائے اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔

کونسل نے بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے خلاف سینیٹ کی قرارداد کو بھی سراہا، اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اپنے آبی وسائل کا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے، خاص طور پر اگر بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے سندھ کا بہاؤ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

اجلاس میں مختلف رپورٹس پیش کی گئیں، جن میں مشترکہ مفادات کونسل سیکریٹریٹ کی مالی سال 2021 تا 2024 کی رپورٹ اور نیپرا کی مالی سال 2020 تا 2023 کی رپورٹ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مشترکہ مفادات کونسل سیکریٹریٹ کے لیے نئی بھرتیوں کے قواعد کی بھی منظوری دی گئی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ اجلاس 2 مئی کو ہونا تھا لیکن سندھ حکومت کی درخواست پر پیر کو طلب کیا گیا تاکہ متنازع نہری منصوبے پر غور کیا جا سکے، جس پر سندھ بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے۔

آٹھ رکنی مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہیں، جب کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، اور وفاقی وزیر امیر مقام بھی کونسل کے رکن ہیں۔

اجلاس میں خصوصی دعوت پر 25 افراد نے شرکت کی، اور مجموعی طور پر چھ نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف