**مالی سال 25-2024 کی پہلے تین سہ ماہیاں ختم ہو چکی ہیں۔ یہ وقت معیشت کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے موزوں ہے، کیونکہ آئندہ سہ ماہی کے اختتام پر وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت نے مارچ 2025 کے آئی ایم ایف پروگرام میں طے کردہ مقداری کارکردگی کے معیار اور اشارتی اہداف کے حوالے سے کس حد تک کارکردگی دکھائی ہے۔

ذیل میں پیش کی گئی معیشت کی صورتحال میں سب سے پہلے نمو کی کارکردگی اور معیشت میں سرمایہ کاری کی سطح کے اشاریے دیکھے جائیں گے۔ اس کے بعد معیشت میں استحکام کے عمل کا جائزہ لیا جائے گا۔

مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور آئندہ مہینوں میں متوقع مہنگائی کی شرح کا تخمینہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد بیرونی ادائیگیوں کے توازن اور سرکاری مالیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ادائیگیوں کے توازن کی پہلی تین سہ ماہیوں کی معلومات فراہم کی ہیں۔ تاہم، مارچ 2025 تک مالیاتی کارکردگی کے نتائج وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے تاحال جاری نہیں کیے گئے۔

ہم سب سے پہلے نمو کے اشاریوں پر توجہ دیتے ہیں۔ زراعت کی بڑے فصلوں کے ذیلی شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ گندم اور کپاس دونوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ خاص طور پر کپاس کی پیداوار میں ممکنہ طور پر 28 فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔

بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ مالی سال 25-2024 کی ابتدائی آٹھ مہینوں میں مینوفیکچرنگ کا مقداری اشاریہ (کیو آئی ایم) 1.9 فیصد کم ہوا ہے۔ چینی، سیمنٹ، اور لوہے و اسٹیل جیسی بڑی صنعتوں میں بالترتیب 12.6 فیصد، 6.4 فیصد، اور 11.7 فیصد کی بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام میں مالی سال 25-2024 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 3.2 فیصد لگایا گیا ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال 24-2023 کی 2.4 فیصد شرح نمو سے معمولی بہتری ہے۔ حالیہ طور پر ورلڈ بینک نے 25-2024 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.3 فیصد تجویز کی ہے۔

مجموعی طور پر اب صورتحال یہ ہے کہ مالی سال 25-2024 میں بھی جی ڈی پی کی شرح نمو محض 2 فیصد کے قریب رہے گی۔ درحقیقت، مالی سال 20-2019 سے 25-2025 کے پانچ سالہ عرصے میں جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو صرف 3 فیصد رہے گی، جو کہ پاکستان کی تاریخ کے کم ترین شرح نمو والے ادوار میں سے ایک ہوگا۔

سرمایہ کاری کی سطح، جو کہ نجی اور سرکاری دونوں اقسام پر مشتمل ہوتی ہے، مالی سال 24-2023 میں جی ڈی پی کے صرف 11.4 فیصد تک گر گئی، جو کہ گزشتہ دس سالوں میں کم ترین سطح ہے۔ 18-2017 میں یہ شرح 15.1 فیصد تک پہنچی تھی۔ نجی اور سرکاری دونوں اقسام کی سرمایہ کاری میں شدید کمی واقع ہوئی، جو شرح نمو میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

تاہم، مالی سال 25-2024 میں نجی سرمایہ کاری کی صورتحال بہتر دکھائی دیتی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد کردیا ہے، اور حکومت کے کم قرضے لینے کی وجہ سے بینک قرضوں کی نجی شعبے تک رسائی میں بہتری آئی ہے۔ 4 اپریل 2025 تک نجی شعبے کو دیا گیا قرضہ 550 ارب روپے رہا، جو کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے 151 ارب روپے سے کئی گنا زیادہ ہے۔

دوسری جانب، سرکاری سرمایہ کاری میں کمی برقرار رہے گی۔ آئی ایم ایف کے بنیادی خسارے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے وفاقی پی ایس ڈی پی پر سخت قدغن لگائی گئی ہے۔ مالی سال 25-2024 کے پہلے چھ مہینوں میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا اصل خرچ صرف 133 ارب روپے رہا، جو سالانہ ہدف 1400 ارب روپے کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

مجموعی طور پر معیشت میں سرمایہ کاری کی سطح میں کسی بڑے اضافے کا امکان نہیں۔ اگر یہ سطح 24-2023 کی انتہائی کم سرمایہ کاری کے مقابلے میں جی ڈی پی کا 0.5 فیصد بڑھ جائے تو یہ بھی مثبت نتیجہ سمجھا جائے گا۔

شاید سب سے خوشگوار حیرت مہنگائی کی شرح میں تیزی سے کمی ہے۔ جولائی 2024 میں مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد، ستمبر میں 6.9 فیصد، دسمبر میں 4.1 فیصد اور مارچ 2025 میں صرف 0.7 فیصد رہی۔ جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ شرح 27.1 فیصد تھی۔ مالی سال 25-2024 کے پہلے نو مہینوں میں اوسط مہنگائی 5.3 فیصد رہی ہے۔

تاہم، بنیادی مہنگائی کی شرح اب بھی نسبتاً بلند ہے، جو مارچ 2025 میں 8.2 فیصد رہی۔ جولائی 2024 سے مارچ 2025 تک کی اوسط 9 فیصد ہے۔

واضح طور پر، مجموعی مہنگائی کی کم شرح کی وجہ خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں محدود اضافہ یا کمی ہے۔ مارچ 2025 میں خوراک کی قیمتوں کے اشاریے میں 5 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ سب سے بڑی کمی گندم اور آٹے کی قیمتوں میں دیکھی گئی، جو تقریباً 35 فیصد تک کم ہوئیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری خریداری نظام کی عدم موجودگی میں کسانوں کو اپنی پیداوار کوڑیوں کے مول بیچنا پڑی؟

دیگر اشیائے خوراک، جیسے ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں میں بھی بالترتیب 54 فیصد اور 71 فیصد کی نمایاں کمی آئی ہے۔ مویشیوں سے حاصل کردہ اشیاء کی قیمتوں میں کچھ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ معاملات میں کمی کی وجوہات درست نہیں، لیکن مجموعی طور پر خوراک کی قیمتوں میں کمی سے اکثریتی آبادی کو ریلیف ضرور ملا ہے۔

ایندھن کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں 21 فیصد سے زائد کمی اور گیس کے نرخوں میں استحکام خوش آئند پیشرفت ہے۔ موٹر فیول کی قیمت بھی 7 فیصد کم ہوئی ہے۔

مجموعی طور پر، قیمتوں میں استحکام خوش آئند ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ جاری رہ پائے گا؟

ممکن ہے کہ اپریل 2025 سے ’کم بنیاد‘ کا اثر نمودار ہو، جس سے مہنگائی کی شرح دوبارہ ایک بلند سنگل ڈیجٹ کی سطح پر جا سکتی ہے۔ ورلڈ بینک نے مالی سال 25-2024 کے لیے مہنگائی کی اوسط شرح 6 فیصد ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

اگلا مضمون ادائیگیوں کے توازن اور سرکاری مالیاتی صورتحال پر مرکوز ہوگا۔ اس میں مارچ 2025 تک کی کارکردگی کو آئی ایم ایف کے مقداری اہداف کے تناظر میں بھی جانچا جائے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف