کاروبار اور معیشت

40 ارب ریونیو خسارہ : ٹی ایسوسی ایشن کا ایس آر او 1735 فوری واپس لینے کا مطالبہ

پاکستان چائے ایسوسی ایشن (پی ٹی اے) نے ایس آر او 1735 کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ...
شائع April 16, 2025

پاکستان ٹی ایسوسی ایشن (پی ٹی اے) نے ایس آر او 1735 کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ریگولیشن کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی وصولیوں میں 40 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔

وفاقی چیمبر کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین پی ٹی اے محمد الطاف نے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ کے ہمراہ کہا کہ حکومت کی جانب سے نومبر 2024 میں 1200 روپے فی کلوگرام ایم آر پی عائد کرنے سے چائے کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

محمد الطاف نے کہا کہ فاٹا / پاٹا خطے کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کے غلط استعمال کی وجہ سے چائے کی درآمدات میں 17.5 فیصد کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چائے کی سالانہ کھپت تقریبا 3 لاکھ ٹن ہے تاہم گزشتہ 9 ماہ کے دوران درآمدات صرف ایک لاکھ 54 ہزار ٹن رہیں جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ 90 ہزار ٹن چائے کی درآمدات کی گئی تھیں۔

چیئرمین پی ٹی اے نے فیصل آباد اور سرگودھا میں کسٹم حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ انٹرنیشنل ٹی پرائس (آئی ٹی پی) سے مشاورت کے بغیر مصنوعی طور پر کم قیمت پر چائے کی کھیپ کلیئر کررہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ٹی اے کی آئی ٹی پی سفارشات کے بغیر کوئی بھی کھیپ کلیئر نہ کی جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ٹی اے کے ارکان اس وقت تقریباً 70 فیصد ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

محمد الطاف نے خبردار کیا کہ اگر ایس آر او 1735 واپس نہیں لیا گیا تو پی ٹی اے کے پاس اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر پراچہ نے پی ٹی اے کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چائے کے شعبے میں فاٹا/پاٹا درآمدی کوٹہ، ڈرائی پورٹ سہولتیں اور ری ایکسپورٹ میکانزم کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے تمام چھوٹ کو ختم کرنے اور پورے شعبے میں یکساں ٹیکسیشن کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔

امان پراچہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ چائے کے چھوٹے تاجر غیرمنصفانہ مارکیٹ طریقوں کے خلاف مقابلہ کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور ٹیکسز میں نمایاں عدم مساوات کی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ جو چائے 800 سے 900 روپے فی کلوگرام درآمد کی جارہی ہے، اس پر 1200 روپے فی کلوگرام ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے 1,200 روپے فی کلوگرام ایم آر پی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جس سے چائے کی قیمت میں 200 سے 300 روپے فی کلوگرام کی کمی واقع ہو گی۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر نے یہ بھی استدلال کیا کہ چائے کو ایک تیار شدہ مصنوعات کے بجائے کھانے کی اشیاء اور خام مال کے طور پر درجہ بندی کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ مکسنگ ، پروسیسنگ اور پیکیجنگ سے گزرتی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ مختلف مراعات اور فوائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تقریباً 71 ہزار ٹن چائے پہلے ہی درآمد کی جاچکی ہے۔

امان پراچہ نے کہا کہ چائے درآمد کنندگان کے خلاف یہ ناانصافی اور ظلم بند ہونا چاہئے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف