یہ وہ لمحہ ہے جس کا کراچی والے پورا سال بے صبری سے انتظار کرتے ہیں — مون سون کی پہلی بارش! کبھی برسات صرف موسم نہیں، ایک تہوار ہوا کرتی تھی۔ جیسے ہی مون سون کی پہلی بوندیں زمین سے ٹکراتیں، یوں لگتا تھا جیسے پورا کراچی سڑکوں پر اُمڈ آیا ہو — خاندان در خاندان بارش میں بھیگتے، خوشیاں مناتے، اور اُس لمحے سے لطف اندوز ہوتے جس کا انتظار انہوں نے پورے سال کیا ہوتا ہے۔

اُس دور میں کراچی نہ تو اتنا گنجان آباد تھا اور نہ ہی آسمان کو چھوتی عمارتوں نے شہر کے افق کو ڈھانپا تھا۔ سمندر سے اٹھنے والی ٹھنڈی ہوائیں بے روک ٹوک شہر میں داخل ہوتی تھیں اور گرمی اور برسات کے موسم میں شہر کو قدرتی طور پر خوشگوار بنادیتی تھیں۔ شہر میں مون سون کی آمد کا اعلان اُن دیوقامت، مشروم نما بادلوں سے ہوتا تھا جو کسی تپتی دوپہر کو اچانک افق پر نمودار ہوتے اور پلک جھپکتے میں شہر بھر پر چھا جاتے — ساتھ لاتے بارش اور ٹھنڈی ہوائیں۔ سورج کی تپش سے جھلسے ہوئے شہر کو یہ منظر جیسے نئی زندگی عطا کرتا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ جاتے۔ مگر اب… بہت کچھ بدل چکا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ”پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے“ — اور شہر کی رونقوں سے لے کر موسموں کی کیفیات تک، سب کچھ ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے۔

ایک بہت اہم تبدیلی صوبہ سندھ، خصوصاً کراچی میں بارشوں کی شدید کمی ہے۔ سال 2023 کا مون سون کراچی کے لیے 2018 کے بعد سب سے خشک ثابت ہوا، اور پچھلے 15 برسوں میں تیسرا خشک ترین مون سون رہا۔ اس سیزن میں صرف 45 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جب کہ معمول کے مطابق اوسطاً 130 سے 140 ملی میٹر بارش ہوتی رہی ہے۔

وہ تمام لوگ جو بارش کے آغاز پر خوشی مناتے تھے، بارش میں بھیگنے کی چہل قدمیاں کرتے اور پوریوں اور پکوڑوں جیسے مخصوص پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، آج شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بارش واقعی ماضی کے معمول کے مطابق ہو بھی جائے تو کراچی کو ان گنت ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ماضی میں نہیں تھے — جب شہر بے ہنگم انداز میں افقی و عمودی وسعت اختیار نہیں کرچکا تھا۔

ایک نہایت سنگین مسئلہ کھلے مین ہولز کا ہے۔ اس بات پر بہت بحث ہوچکی ہے کہ یہ مسئلہ پیدا کیسے ہوتا ہے، لیکن آج تک یہ مین ہولز بند نہیں ہو سکے اور نہ ہی ان کے مسلسل غائب ہونے کا کوئی مؤثر حل سامنے آیا ہے۔ بارش کے پانی میں چھپے یہ کھلے گڑھے خاص طور پر بچوں کے لیے مہلک جال بن چکے ہیں — وہ معصوم بچے جنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے گھر کے قریب ٹھہرا ہوا پانی کسی تفریح یا کھیل کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کے لیے جان لیوا خطرہ ہے۔

کوئی اس مسئلے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے اور مون سون کی خوشیوں کو گہنا دیتا ہے۔ سب کی نظریں متعلقہ سرکاری اداروں پر ہوتی ہیں، لیکن شاید اگر کمیونٹی خود مل کر کوئی منصوبہ بنائے اور خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدام کرے تو قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔ آخر ایک کھلے مین ہول کو ڈھانپنا یا کم از کم اس پر خطرے کا انتباہی بورڈ لگانا کوئی ناقابلِ حل کام تو نہیں۔

بارش کے دوران ایک اور سنگین خطرہ حفاظتی تدابیر کی خلاف ورزی ہے۔ اس موسم میں بجلی کے کھمبوں، تاروں یا دیگر تنصیبات سے دور رہنا انتہائی ضروری ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ پانی میں کھڑے ہوں۔ یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے، کیونکہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ حقیقی وقت میں ہر جگہ اپنی تنصیبات پر چھیڑ چھاڑ کی نگرانی کر سکے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ”آسمان سے گرے، کھجور میں اٹکے“ کے مصداق ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

جب کسی علاقے میں کھمبے سے کرنٹ لگنے کی اطلاع پر بجلی کی فراہمی منقطع کی جاتی ہے تو لوگ احتجاج کرتے ہیں، شور شرابا ہوتا ہے، حتیٰ کہ سڑکیں بھی بلاک کردی جاتی ہیں اور اگر بجلی بند نہ کی جائے تو کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ عام عوام کو یہ بات بھی علم نہیں کہ تمام کھمبے ایک ہی ادارے کے نہیں ہوتے—کچھ پرائیویٹ کمپنیاں یا دیگر سرکاری ادارے بھی اپنی تاریں اور تنصیبات نصب کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اسٹریٹ لائٹس شہر کی حکومت کی ملکیت ہوتی ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ ہر مسئلے کو الگ الگ دیکھا جائے اور مختلف علاقوں کے معزز بزرگوں کی جانب سے بجلی کے کھمبوں کی ملکیت کی فہرست تیار کی جائے تاکہ متعلقہ محکمے سے فوری رابطہ کیا جاسکے اور قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔

کراچی میں پہلی بارش کافی تیز اور پورے شہر میں یکساں ہوئی۔ طویل عرصے کے بعد پورا کراچی بارش کی لپیٹ میں آیا جس کے ساتھ گرمی کی ناقابل برداشت شدت سے راحت کا سانس بھی ملا۔ میرا خیال ہے کہ کراچی کے لوگ اب بھی بارش کو ترجیح دیں گے، کیونکہ ٹھنڈی ہوا اور آسمان سے ٹپکنے والا ٹھنڈا پانی پسینے میں شرابور ہونے سے کہیں بہتر ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف