پہلگام کے قریب سے سخت سیکیورٹی میں ہندو یاترا کا آغاز
ہندوؤں نے جمعرات کے روز بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں ایک وسیع اور ماہ بھر طویل یاترا (مذہبی سفر) کا آغاز کیا، جہاں کئی زائرین نے اُس مقام سے روانگی کی جہاں اپریل میں ہونے والے ایک مہلک حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔
گزشتہ سال، نصف ملین سے زائد عقیدت مندوں نے امر ناتھ یاترا میں شرکت کی تھی، جو کہ برف سے بنی ایک مقدس شیولنگ کی زیارت پر مبنی ہے۔ یہ برفانی ستون ایک غار میں واقع ہے جو پہلگام قصبے کے اوپر جنگلات سے گھِرے ہمالیائی پہاڑوں میں ہے۔
یاد رہے، پہلگام ہی وہ مقام ہے جہاں 22 اپریل کو نامعلوم مسلح افراد نے 26 افراد کو قتل کیا تھا، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔
نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جوابی سفارتی اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر چار روزہ عسکری جھڑپوں میں تبدیل ہو گیا۔
یہ جھڑپیں 1999 کے بعد دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان سب سے سنگین تصادم تھیں، جن میں 70 سے زائد افراد میزائل، ڈرون اور توپخانے کی فائرنگ سے مارے گئے، یہاں تک کہ 10 مئی کو جنگ بندی ہو سکی۔
مگر اس کے باوجود، اترپردیش سے آئے یاتری منیشور داس شاستری نے اے ایف پی کو بتایا کہ “ہمیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ہر جگہ موجود ہے۔ کوئی ہم پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
بھارت نے امرناتھ یاترا کے لیے سیکیورٹی کو انتہائی سخت کر دیا ہے۔ 45,000 فوجی تعینات کیے گئے ہیں جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی نگرانی کے آلات کی مدد سے اس دشوار گزار راستے کو محفوظ بنا رہے ہیں جو بلندی پر موجود غار تک جاتا ہے۔ یہ غار ہندو دیوتا شیو سے منسوب ہے۔
وی کے برڈی، جو کہ مسلم اکثریتی خطے کے پولیس سربراہ ہیں، نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی کے لیے کثیر سطحی انتظامات کیے ہیں تاکہ زائرین کا سفر محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔“
خوفزدہ نہیں
پہلگام میں ایک خیمہ گاؤں کو فوجی قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جو خاردار تاروں سے گھرا ہوا ہے۔
نئے تعینات شدہ بکتر بند گاڑیوں اور ریت سے بھرے تھیلوں کے پیچھے سے تعینات فوجی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس نگرانی میں چہرہ شناخت کرنے والے کیمرے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
منوج سنہا جو بھارت کی طرف سے نامزد کردہ مقبوضہ کشمیر کے اعلیٰ منتظم ہیں، نے کہا تمام اہم مقامات پر اعلیٰ معیار کے کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔
تمام یاتریوں کا رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے اور انہیں محافظ قافلوں میں سفر کرنا ہوتا ہے، جب تک کہ وہ پیدل سفر کا آغاز نہ کریں۔
راستے میں کیموفلاج شدہ بنکرز بنائے گئے ہیں اور درجنوں عارضی باورچی خانے زائرین کو مفت کھانا فراہم کر رہے ہیں۔ ہر یاتری کے پاس الیکٹرانک ریڈیو کارڈز ہوتے ہیں، جن سے ان کے مقام کی نشاندہی ممکن ہوتی ہے۔
غار تک پہنچنے کے لیے زائرین کو کئی دن لگ سکتے ہیں۔ یہ غار سطح سمندر سے 3,900 میٹر (12,800 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے اور آخری موٹروے سے تقریباً 30 کلومیٹر (18 میل) دور ہے۔
اترپردیش سے آئے 29 سالہ اجول یادو نے کہا، چاہے یہاں جو بھی حملہ ہوا ہو، میں نہیں ڈرتا۔ میں بابا (برفانی ستون) کے درشن کے لیے آیا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں سیکیورٹی کے ایسے انتظامات ہیں کہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
منوج سنہا نے کہا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس سال یاتریوں کی رجسٹریشن میں 10 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
یہ یاترا، جو کبھی ایک محدود اور نسبتاً غیر معروف مذہبی رسم تھی جس میں چند ہزار مقامی عقیدت مند ہی شرکت کرتے تھے، 1989 میں شروع ہونے والی مسلح بغاوت کے بعد بہت بڑھ چکی ہے۔
کشمیری عسکریت پسندوں نے کہا ہے کہ وہ اس یاترا کو نشانہ نہیں بناتے، لیکن اگر اسے ہندو بالادستی کے اظہار کے طور پر استعمال کیا گیا تو وہ ضرور کارروائی کریں گے۔
2017 میں مشتبہ باغیوں نے ایک یاتری بس پر حملہ کیا تھا جس میں 11 افراد مارے گئے تھے۔
22 اپریل کے حملے میں ملوث افراد تاحال مفرور ہیں، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مستقل تعیناتی نصف ملین فوجیوں پر مشتمل ہے۔
22 جون کو بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے بتایا کہ انہوں نے پہلگام سے دو افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے حملہ آوروں کو خوراک، پناہ اور لاجسٹک مدد فراہم کی۔
بھارتی پولیس نے تین حملہ آوروں کے وارنٹ جاری کیے ہیں، جن میں سے دو کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔
Comments