ڈالر پیر کو تمام بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم رہا کیونکہ امریکی ملازمتوں کی مثبت اور لندن میں ہونے والے اہم امریکہ چین تجارتی مذاکرات سے قبل احتیاط کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

یہ مذاکرات دونوں معیشتوں کیلئے انتہائی اہم وقت پر ہورہے ہیں جہاں چین ڈیفلیشن کے دباؤ کا سامنا کررہا ہے جبکہ تجارتی غیر یقینی صورتحال نے امریکہ میں کاروبار اور صارفین کے اعتماد کو زائل کر دیا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار ڈالر کی محفوظ پناہ کی حیثیت پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

ٹریژری سیکرٹری اسکاٹ بیسنٹ، کامرس سیکرٹری ہاورڈ لوٹ نِک اور تجارتی نمائندہ جیمیسن گرئیر امریکہ کی نمائندگی کے لیے مذاکرات میں شرکت کریں گے، جب کہ نائب وزیرِاعظم ہی لیفینگ ممکنہ طور پر چینی وفد کے ساتھ موجود ہوں گے۔

سیکسو مارکیٹس کی چیف انوسٹمنٹ اسٹریٹجسٹ چارُو چننا نے کہا کہ بات چیت جاری رکھنے کا معاہدہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ضرور ہے، مگر جب تک کوئی واضح پیش رفت نہ ہو، مارکیٹ کے جذبات پر اس کا اثر کمزور ہی رہے گا۔

جمعہ کو جاری ہونے والی امریکی ملازمتوں کی مثبت رپورٹ نے گزشتہ ہفتے کے دیگر مایوس کن اقتصادی اعدادوشمار کے بعد سرمایہ کاروں کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے۔

امریکی ملازمتوں کی رپورٹ کے بعد ڈالر نے بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوطی دکھائی جس سے ڈالر انڈیکس کی ہفتہ وار کمی آدھے سے بھی کم رہ گئی۔

تاہم سالانہ بنیادوں پر یہ اب بھی 8.6 فیصد سے زائد کی کمی کا شکار ہے۔

پیر کو جاپانی ین نے ڈالر کے مقابلے میں 0.10 فیصد مضبوطی دکھاتے ہوئے 144.750 کی سطح حاصل کی کیونکہ تازہ اعداد و شمار نے بتایا کہ جنوری سے مارچ تک جاپان کی معیشت توقع سے کم رفتار سے سکڑی، جس سے ین کو تقویت ملی۔

ڈالر انڈیکس 99.169 کی مستحکم سطح پر رہا۔

جمعہ کو 10 بنیاد پوائنٹس سے زائد اضافے کے بعد، 10 سالہ امریکی ٹریژری نوٹس کی ییلڈ ایشیا کی ابتدائی تجارت میں مستحکم رہی۔

نیوزی لینڈ ڈالر کا حالیہ لین دین 0.6020 ڈالر رہا جبکہ آسٹریلین ڈالر ہلکی خرید و فروخت کے باوجود 0.1 فیصد بڑھ کر 0.65 ڈالر پر پہنچ گیا، کیونکہ مارکیٹس عوامی تعطیل کے باعث بند تھیں۔

ہفتے کے آخر میں امریکا کی مئی کی مہنگائی کی رپورٹ پر توجہ مرکوز ہوگی، کیونکہ سرمایہ کار اور فیڈرل ریزرو کے پالیسی ساز اس بات کا جائزہ لیں گے کہ تجارتی پابندیوں نے معیشت پر کس حد تک اثرات مرتب کیے ہیں۔

فیڈ حکام آئندہ ہفتے ہونے والی پالیسی میٹنگ سے قبل خاموشی کے مرحلے میں ہیں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ شرح سود میں کمی کے لیے جلد بازی میں نہیں ہیں اور معیشت کی توقع سے بہتر مضبوطی کے اشارے ان کے موقف کو مزید مستحکم کرسکتے ہیں۔

ایل ایس ای جی کے اعدادوشمار کے مطابق شرح سود کے مستقبل کے معاہدے ظاہر کرتے ہیں کہ سرمایہ کار توقع کررہے ہیں کہ مرکزی بینک رواں سال اکتوبر میں قرض لینے کی لاگت 25 بنیاد پوائنٹس تک کم کرسکتا ہے۔

Comments

200 حروف