ٹیکس بیوروکریسی کی یہ روش کہ وہ ایسے اقدامات متعارف کرواتی ہے جو بظاہر ریونیو میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن نتیجتاً معیشت کو مفلوج کر دینے والے اثرات پیدا کرتے ہیں، نااہلی کا ایک خطرناک چکر ظاہر کرتی ہے جہاں بنیادی معاشی اصولوں کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے۔

ایف بی آر کی پوری تاریخ ایسے جلدبازی میں کیے گئے ٹیکس اقدامات سے بھری پڑی ہے جو قانون کے مطابق ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈال کر، نادہندگان کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور مسلسل معاشی نمو کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ اسی تسلسل میں ایک اور خود کو نقصان پہنچانے والی تجویز زیر غور ہے کہ آئندہ بجٹ میں کمرشل بینک ڈپازٹس اور سیونگز اسکیموں پر منافع کی آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافہ کیا جائے۔

یہ تجویز معیشت کے ایک ایسے اہم ستون — قومی بچت — کو مزید کمزور کرنے کا خطرہ رکھتی ہے جو پہلے ہی خطے میں سب سے نازک حالت میں ہے۔ بچت کی حوصلہ شکنی کرکے ایف بی آر درحقیقت معیشت کو درکار سرمائے سے محروم کر دے گا جس سے سرمایہ کاری کی سطح گھٹے گی، طویل المدتی اقتصادی ترقی متاثر ہوگی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے بھی کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوسکے گی۔

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں (فائلرز) کیلئے منافع پر موجودہ ٹیکس شرح پہلے ہی خاصی بھاری یعنی 15 فیصد ہے جب کہ نان فائلرز کے لیے یہ شرح 35 فیصد تک پہنچتی ہے۔ مزید یہ کہ فائلرز پر 15 فیصد کی یہ شرح صرف اُس صورت میں لاگو ہوتی ہے جب سالانہ منافع کی آمدن 50 لاکھ روپے تک ہو۔

مقررہ حد سے زائد آمدن پر فرد کی مجموعی آمدنی — جس میں منافع بھی شامل ہے — پر رائج ٹیکس سلیب کے مطابق بھاری ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو پہلے ہی نظام میں شامل ٹیکس دہندگان پر اضافی دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسے میں شرحِ منافع پر مزید دو فیصد ٹیکس اضافہ اس غیرمنصفانہ نظام کو مزید بگاڑ دے گا اور بچت کی حوصلہ شکنی کو خطرناک حد تک بڑھا دے گا۔

پاکستان پہلے ہی خطے میں سب سے کم بچت کی شرح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے — ایک بنیادی کمزوری جو ملک کی معاشی ترقی کو شدید نقصان پہنچا چکی ہے۔ ڈومیسٹک بچتوں کی کمی کی وجہ سے معیشت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی قرضوں پر زیادہ انحصار کرتی ہے، جو قرضوں کی لت کا ایک خطرناک چکر پیدا کرتا ہے۔

بینک ڈپازٹس اور سیونگز اسکیموں پر منافع کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ اصل میں بچت کرنے والوں کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ اس سے لوگ اپنے پیسے کو رسمی مالیاتی اداروں میں جمع کروانے سے گریز کریں گے اور بغیر ٹیکس یا کم ٹیکس والے غیر رسمی ذرائع کی طرف رجحان بڑھ جائے گا، جو کہ ملکی بچت کے حجم کو مزید کمزور کر دے گا۔

نتیجہ یہ ہوگا کہ قرض پر انحصار مزید بڑھ جائے گا اور بڑھتے قرض کی ادائیگی کے لیے اضافی آمدنی جمع کرنے کی اشد ضرورت پیدا ہوجائے گی۔ یہ پالیسی عوامی مالیات کو مضبوط کرنے کے بجائے انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گی۔

معیشت کو درپیش بنیادی چیلنج اخراجات اور آمدنی کے درمیان واضح فرق ہے اور اس خسارے کو پورا کرنا حکومت کی واحد ترجیح ہونی چاہیے، اگرچہ اخراجات میں کمی ایک حل ہے لیکن اس راستے پر امکانات محدود ہیں۔

قرض کی ادائیگی جو کہ سب سے بڑا اور لازمی خرچہ ہے، صرف ایک عبوری رقم ہے اور علاقائی کشیدگیوں کے باعث دفاعی بجٹ میں قریبی مدت میں کمی کا امکان کم ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں جاری صورتحال کے پیش نظر، تاہم حکومت دیگر شعبوں میں اپنے بڑھتے ہوئے جاری اخراجات میں خاطر خواہ کمی لاسکتی ہے۔

مختصر، کم وزیروں اور مشیروں پر مشتمل کابینہ مالی طور پر دانشمندانہ اور علامتی طور پر ناگزیر ہے۔ حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس تبھی دے سکتی ہے جب وہ خود فضول خرچی اور بوجھل سرکاری نظام کے ظاہری مناظر کو ختم کرے۔

آمدنی کے شعبے میں پاکستان کو ایک ایسا جامع اور مؤثر ٹیکس نظام چاہیے جو صرف اثاثوں اور بچتوں پر نہیں بلکہ آمدنی اور کھپت پر عادلانہ طریقے سے ٹیکس عائد کرے۔ بدقسمتی سے موجودہ نظام میں لین دین پر غیر متناسب اور پیچیدہ ودہولڈنگ ٹیکس لگایا جاتا ہے، جس میں کاروبار مختلف مراحل پر مختلف شرحوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تقریباً ہر اقتصادی سرگرمی پر منافع یا نقصان سے قطع نظر، کم از کم ٹرن اوور ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جو کاروباری ماحول کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔

پیچیدہ ٹیکس نظام نہ صرف ٹیکس دہندگان کی تعمیل کو روک رہا ہے بلکہ ایماندار ٹیکس گزاروں کو بھی غیر منصفانہ طور پر سزا دیتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری خزانے خالی ہورہے ہیں اور معیشت کے اہم شعبے مالی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر بچتوں پر مجوزہ ٹیکس نافذ کیا گیا تو یہ انہی خامیوں کو مزید بڑھا دے گا۔ وزیر خزانہ کا ساختی اصلاحات پر مبنی بجٹ پیش کرنے کا مقصد ایسے اقدام سے حاصل نہیں ہوسکتا جو معیشت کی جان بخشی کے منافی ہو۔ حکومت کی پالیسی بچت کو فروغ دے، نہ کہ اسے زیرِ زمین لے جائے۔

حکومت کی پالیسی کا مقصد بچت کو پروان چڑھانا ہونا چاہیے، نہ کہ اسے غیر رجسٹرڈ اور غیر محفوظ طریقوں کی طرف مائل کرنا ہونی چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف