انشورنس صنعت نے انتظامی اور مالی بوجھ کم کرنے کے لیے دہرے ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیکٹر کا مؤقف ہے کہ انشورنس پر ٹیکس وفاقی دائرۂ اختیار میں ہونا چاہیے تاکہ پورے ملک میں یکسانیت برقرار رہے اور صوبائی سطح پر دہرا ٹیکس عائد ہونے سے بچا جا سکے۔
بزنس ریکارڈر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان (آئی اے پی) کے چیئرمین شعیب جاوید حسین نے بتایا کہ آئی اے پی نے انشورنس پر ٹیکس کے نظام کو معقول اور مربوط بنانے کے لیے اپنی بجٹ تجاویز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارتِ خزانہ کو پیش کر دی ہیں۔
شعیب جاوید حسین نے واضح کیا کہ اگر وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹیکس کا جھگڑا ختم ہو جائے تو انشورنس کمپنیوں کے لیے کام آسان ہو جائے گا، لاگت کم ہوگی اور اس کا براہِ راست فائدہ پالیسی ہولڈرز کو ملے گا۔
اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن (ایس ایل آئی سی ) کے سی ای او اور آئی اے پی کے چیئرمین حسین نے کہا کہ ایک مربوط ٹیکس نظام صوبوں میں ہم آہنگی، وسعت اور ایک مضبوط قومی مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے نہایت ضروری ہے۔
انشورنس کی رسائی کو بڑھانے کی ضرورت ہے، شعیب جاوید حسین
مالی سال 2023 میں شعیب حسین نے بتایا کہ پاکستان کے انشورنس سیکٹر نے 613 ارب روپے سے زائد کے مجموعی پریمیمز جمع کیے، جن میں زندگی بیمہ کا حصہ تقریباً 66 فیصد تھا۔ اگرچہ انشورنس کا شعبہ زبردست صلاحیت رکھتا ہے، مگر اس کی رسائی ملک کے مجموعی معاشی حجم (جی ڈی پی ) کا صرف 1 فیصد سے بھی کم ہے، جو بھارت (4 فیصد)، چین (3.9 فیصد) اور سری لنکا (1.2 فیصد) جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ یہاں غیر معمولی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
دنیا میں انشورنس کی اوسط رسائی 6.7 فیصد ہے یعنی ہماری صنعت کو صرف اس معیار تک پہنچنے کے لیے اپنی گنجائش 8 گنا بڑھانی ہوگی۔ اگر ہم اس شعبے کی ترقی پر بھرپور توجہ دیں تو درمیانے عرصے میں نہ صرف ملک کی ٹیکس آمدنی میں زبردست اضافہ ہوگا بلکہ ہماری معیشت کو بھی نئی بلندیوں تک لے جایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انشورنس کی خریداری کو فروغ دینے کے لیے آمدنی ٹیکس کریڈٹس کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا اور صوبائی سیلز ٹیکس کو ختم کرنا لازم ہے، اسی سلسلے میں انہوں نے زندگی، صحت اور مائیکرو انشورنس کے پریمیمز پر ٹیکس کریڈٹس کی بحالی کی تجویز پیش کی ہے تاکہ لوگوں کی انشورنس کی جانب دلچسپی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کریڈٹس نہ صرف بچت کے کلچر کو پروان چڑھائیں گے بلکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی ایک مؤثر ریلیف کا ذریعہ بنیں گے، جو ملک کے ٹیکس بوجھ کا بڑا حصہ اٹھاتے ہوئے اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی مراعات ملک میں انشورنس کی قبولیت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کریڈٹس کو عوام کے لیے بچت اور سرمایہ کاری کا ایک اہم آلہ سمجھنا چاہیے، جو پاکستان کی حکومت کے مالی شمولیت کے اہداف کو بھی فروغ دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انشورنس پریمیمز پر لاگو کیا جانے والا ٹیکس، چاہے وہ صوبائی سیلز ٹیکس کی صورت میں ہو یا وفاقی ٹرن اوور ٹیکس کی شکل میں، افراد پر ایک اضافی براہِ راست ٹیکس ہے جو اپنی زندگی کے اہم مواقع کے لیے بچت کرنے یا غیر متوقع ناخوشگوار حالات سے تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شعیب جاوید حسین کا ماننا ہے کہ انشورنس کی خریداری کو مزید بڑھانے کے لیے پریمیمز پر لگنے والے ٹیکسز کو ختم کرنا ضروری ہے، کیونکہ زندگی بیمہ کمپنیوں پر ٹیکس چوتھے شیڈول کے تحت لگایا جاتا ہے اور ان پر ٹرن اوور ٹیکس لاگو نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انشورنس خطرات کے انتظام کا ایک اہم ذریعہ ہے، آمدنی کا نہیں،اور پریمیمز پر ٹیکس لگانے سے کاروبار اور افراد کی خطرات کو کم کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ لائف انشورنس کمپنیوں کے ذریعے حاصل کیے گئے پریمیمز درحقیقت مشروط واجبات ہوتے ہیں جو مستقبل میں دعووں کی ادائیگی کے لیے محفوظ کیے جاتے ہیں، نہ کہ آپریٹنگ آمدنی، اور یہ پہلے ہی اس وقت ٹیکس کے دائرے میں آ جاتے ہیں جب سالانہ منافع شیئر ہولڈرز کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
کیپٹل مارکیٹ پر ٹیکس کا نظام
انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے مجوزہ بجٹ میں ایک اور اہم تجویز کیپٹل مارکیٹ پر ٹیکس نظام میں بہتری کی ہے۔ انشورنس شعبہ مطالبہ کر رہا ہے کہ کیپٹل گینز اور ڈیوڈنڈ آمدنی پر موجودہ ٹیکس پالیسی پر نظرثانی کی جائے تاکہ اس شعبے کی مخصوص نوعیت کو مدنظر رکھا جاسکے، بجائے اس کے کہ ان پر وہی قوانین لاگو کیے جائیں جو بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کیلئے بنائے گئے ہیں۔
چیئرمین آئی اے پی نے وضاحت کی کہ قانون سازوں کی جانب سے انشورنس اور بینکاری شعبے کو ایک جیسا سمجھنا درست نہیں۔ انشورنس کمپنیاں معمولی پریمیم کے عوض بیمہ کنندگان کو ممکنہ مالی نقصانات سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس خطرے کو مؤثر طور پر سنبھالنے کے لیے، ان کمپنیوں کو اپنے اثاثے مختلف سرمایہ کاری کے شعبوں میں تقسیم کرنا پڑتے ہیں، جن میں ہر ایک کا خطرہ برداشت کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ یہی منفرد مالی حکمتِ عملی انہیں بینکوں سے ممتاز کرتی ہے، اس لیے یکساں ٹیکس پالیسی کا اطلاق غیر موزوں ہے۔
چیئرمین آئی اے پی نے پرزور مطالبہ کیا کہ چوتھے شیڈول کے قاعدہ 6 بی جو فنانس ایکٹ 2016 کے تحت نافذ کیا گیا تھا، کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اس قاعدے کے تحت انشورنس کمپنیوں کی کیپٹل گینز اور ڈیوڈنڈ آمدنی کو ایک ہی قابلِ ٹیکس ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں زندگی اور نان لائف انشورنس کمپنیوں کی آمدنی کو شدید مالی نقصان پہنچا ہے۔ انڈسٹری کے مطابق یہ غیر منصفانہ ضابطہ انشورنس شعبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔
شعیب جاوید حسین کو یقین ہے کہ اس ٹیکس پالیسی کو منصفانہ انداز میں یکساں بنانا نہ صرف مالیاتی نظام میں غیر جانبداری کو بحال کرے گا بلکہ کیپٹل مارکیٹ کی وسعت اور گہرائی میں بھی خاطرخواہ اضافہ کرے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا کے کئی ممالک انشورنس کے منفرد مالیاتی ڈھانچے کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) اور اسی نوعیت کے دیگر ٹیکسز سے مستثنیٰ رکھتے ہیں۔ اگر ہم بھی عالمی معیار کی اس پریکٹس کو اپنائیں تو یہ نہ صرف مالی شمولیت کو فروغ دے گی بلکہ پاکستان میں انشورنس کی رسائی بڑھانے اور شعبے کی پائیدار ترقی کو بھی طاقت بخشے گی۔
چیئرمین آئی اے پی نے کہا کہ انشورنس انڈسٹری نہ صرف ملک کی مالی و اقتصادی استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتی ہے بلکہ حکومت کے اس راہ میں اٹھائے گئے ہر اقدام کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انشورنس صنعت ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے، کیونکہ یہ کیپٹل مارکیٹس، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں اہم سرمایہ کاری کرتی ہے اور سماجی تحفظ کے ذریعے معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کو مدد فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے اختتام میں کہا کہ آئی اے پی یہ بجٹ تجاویز ریگولیٹر یعنی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بھی زیرِ بحث لائی ہیں، جس نے ان تجاویز کی حمایت کی ہے اور انشورنس شعبے کی قومی معیشت میں اہم کردار کو تسلیم کیا ہے۔
تعارف
شعیب جاوید حسین پاکستان کی اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیئرمین ہیں۔
ان کے پاس لندن کی سٹی یونیورسٹی کی کاس بزنس اسکول جو اب بیز بزنس اسکول ہے سے ایکچوریئل مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے اور وہ برطانیہ کے انسٹیٹیوٹ آف ایکچوریئز کے فیلو بھی ہیں۔ انہوں نے اپنا کیریئر پاکستان میں ایکچوریئل کنسلٹنسی سے شروع کیا۔
ان کے پاس برطانیہ اور ایشیا کی معروف عالمی انشورنس کمپنیوں اور کنسلٹنسیز میں دو دہائیوں سے زیادہ انتظامی تجربہ ہے۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے قبل، وہ ہانگ کانگ کی ایک بین الاقوامی انشورنس اور فنانس کمپنی، AIA گروپ لمیٹڈ، میں سینئر قائدانہ اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔
اس وقت وہ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
Comments