صدر مملکت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو یہ اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ ٹیکس دہندگان کے منقولہ وغیر منقولہ اثاثوں سے فوری طور پر ٹیکس وصول کرے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بغیر کسی مزید نوٹس کے ان کے کاروباری مقامات کو سربمہر (سیل) کرسکے۔
اس کے علاوہ اس آرڈیننس کے تحت ان لینڈ ریونیو افسران کو کاروباری مقامات پر تعینات کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے تاکہ پیداوار اور خدمات کی نگرانی کی جاسکے۔ اس آرڈیننس کا مقصد بالکل واضح ہے: موجودہ سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 704 ارب روپے کے خسارے کو کم کرنا (جب کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سال کے اختتام تک ایک ٹریلین روپے کا خسارہ ہوسکتا ہے) جو بجٹ میں ہدف کے طور پر طے کیا گیا تھا، یہ ہدف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت طے کیا گیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقت کے مراکز میں یہ بحث کی جارہی ہوگی کہ اس سے دوسرے اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے میں سہولت ملے گی، جو دوسرے قسط کی اجراء کے لیے ضروری پیشگی شرط ہے اور آئندہ سال کے بجٹ میں مزید غیر حقیقت پسندانہ آمدنی ہدف مقرر کرنے کی ضرورت کو کم کرے گا۔
اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ملک میں ایک غیر قانونی معیشت بھی موجود ہے، جہاں بہت سے کاروبار اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے انکار کررہے ہیں کیونکہ انہیں ایف بی آر کے افسران پر بدعنوانیوں کا شک ہے، اس نئے آرڈیننس نے کاروباری برادری میں جاری / زیر التوا اپیلوں کے حوالے سے تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ یہ آرڈیننس ان کے قانونی حقوق کو کمزور کرتا ہے، اس کے ساتھ یہ خوف بھی موجود ہے کہ نجی شعبے کے ادارے صوبائی اور وفاقی حکام کی جانب سے نگرانی کا سامنا کرسکتے ہیں جو ایف بی آر کے سامنے براہ راست جوابدہ نہیں ہیں۔
یہ ہماری وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے لئے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہئے جنہوں نے اپریل میں اکنامک اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ “بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) دباؤ میں ہے ، رواں مالی سال جولائی تا فروری پیداوار میں 1.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ، جب کہ پچھلے سال 0.4 فیصد کمی آئی تھی۔ فروری میں ایل ایس ایم میں ماہانہ بنیادوں پر 5.9 فیصد اور سالانہ 3.5 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
بزنس ریکارڈر نے ماضی اور موجودہ کئی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکس نظام میں اصلاحات لائیں، اور ٹیکس وصولی کا بوجھ ان پر ڈالنے کے بجائے جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں، ان افراد اور شعبوں پر منتقل کریں جو تاحال ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان میں بڑے زمیندار، رئیل اسٹیٹ کے کاروباری افراد، تاجر، اور آڑھتی شامل ہیں—وہ درمیانی کردار ادا کرنے والے افراد جو اپنی من مانی سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھا کر بے تحاشہ منافع کماتے ہیں۔
اگرچہ صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف کی شرط کے تحت زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے قانون سازی کر دی ہے—جس کے تحت زمیندار کی آمدنی پر ٹیکس وصول کیا جانا ہے—تاہم اس پر عملدرآمد کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر اس عمل کے بارے میں کہ زمیندار کی اصل آمدنی کا درست تعین کس طرح کیا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار بدستور جاری ہے، اور رواں مالی سال میں نہ صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھایا گیا—جس کے نتیجے میں نچلے اور متوسط طبقے کے معیارِ زندگی میں کمی آئی—بلکہ اشیاء اور خدمات پر سیلز ٹیکس کی صورت میں بالواسطہ ٹیکس بھی بڑھایا گیا۔ اس ٹیکس کو ایف بی آر اور بجٹ دستاویزات میں غلط طور پر براہِ راست ٹیکس (آمدنی کے مطابق قابلِ ادائیگی ٹیکس) ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث غربت کی سطح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور ورلڈ بینک کے مطابق یہ 42.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو سب صحارا افریقہ کے ممالک کے برابر ہے۔
آخر میں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر ہماری حکومتوں کا ایک مستقل رویہ بن چکا ہے، جس کا نقصان براہِ راست عوام کو ہوتا ہے۔ تمام اہم اصلاحات کو مؤخر کرنا — سوائے ایک کے، یعنی توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کو بینکوں سے قرض لے کر عارضی طور پر کم کرنا اور اس قرض پر سود کا بوجھ عوام پر ڈال دینا (جیسا کہ جون 2013 میں کیا گیا تھا اور جس پر اس وقت بھی سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے) — معیشت کی موجودہ کمزوری کی اصل وجہ ہے۔
انتظامیہ سنبھالنے کے ایک سال بعد بھی ساختی اصلاحات کا انتظار باقی ہے، اور حکومت کی تمام شعبوں میں مسلسل غیر مؤثر کارکردگی کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑرہا ہے، جس کا ثبوت جاری اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔
گزشتہ سال جاری اخراجات میں 21 فیصد اضافہ کیا گیا، اور اب صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ سال یہ اخراجات موجودہ سطح پر برقرار رکھے جائیں، حالانکہ مثالی طور پر انہیں ایک سے دو کھرب روپے تک کم کیا جانا چاہیے تاکہ نہ صرف رواں سال کی آمدنی میں کمی کا ازالہ ہو سکے بلکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جا سکیں، جس کا مقصد ملک میں تشویشناک حد تک بلند غربت کی سطح کو کم کرنا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments