عالمی سرمایہ کار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بدھ کے روز مجوزہ تجارتی ٹیرف کی آخری تاریخ کا سامنا سکون اور غیر معمولی دلچسپی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ سرمایہ کار پہلے ہی ایسے متعدد منظرناموں کے لیے تیار ہیں، جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مارکیٹ میں پہلے ہی پیش آچکے ہیں۔

2 اپریل کو اعلان کردہ ’’یوم آزادی‘‘ ٹیرف پر 90 روزہ تعطل کے اختتام سے چند دن قبل، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ پیر کے روز 12 ممالک کو وہ ابتدائی خطوط ارسال کیے جائیں گے جن میں بتایا جائے گا کہ وہ امریکی برآمدات پر کس حد تک ٹیرف کا سامنا کریں گے۔

ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال ہے کہ تمام تجارتی شراکت داروں کے ساتھ فوری معاہدے ممکن نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال برقرار رہے گی۔

نیو یارک میں نیوبرگر برمین کے ملٹی ایسیٹ چیف انویسٹمنٹ آفیسر جیف بلیزیک کے مطابق مارکیٹ اب ٹیرف سے متعلق خبروں پر زیادہ پُر اعتماد اور مطمئن ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ڈیڈ لائن میں اتنی نرمی موجود ہے کہ مارکیٹ بہت زیادہ متاثر نہیں ہوگی، جب تک کوئی بڑا سرپرائز سامنے نہ آئے۔

ٹیرف کی سطح اور نفاذ کی تاریخیں اب متحرک اہداف بن چکی ہیں۔ جمعہ کو ٹرمپ نے کہا کہ ٹیرف کی شرح 70 فیصد تک ہو سکتی ہے، جو کہ 10 سے 50 فیصد کے اس اعلان سے کہیں زیادہ ہے جو اپریل میں کیا گیا تھا۔

ابھی تک امریکہ نے صرف برطانیہ کے ساتھ محدود معاہدہ کیا ہے، جب کہ ویتنام کے ساتھ اصولی معاہدہ طے پایا ہے۔ بھارت اور جاپان سے متوقع معاہدے ناکام رہے ہیں اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات میں بھی رکاوٹیں درپیش ہیں۔

اس دوران دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں ریکارڈ بلندی پر پہنچ چکی ہیں، جو اپریل 2 کے بعد سے 11 فیصد بڑھی ہیں۔ اگرچہ اس اعلان کے بعد ابتدائی تین دنوں میں مارکیٹس 14 فیصد گر گئیں تھیں، لیکن اس کے بعد وہ 24 فیصد بحال ہو چکی ہیں۔

ایسٹ اسپرنگ انویسٹمنٹس سنگاپور کے پورٹ فولیو مینیجر رونگ رین گوہ کا کہنا ہے کہ اگر ’یوم آزادی‘ زلزلہ تھا، تو یہ خطوط آفٹر شاک ہوں گے۔ ان کا اثر مارکیٹ پر پہلے جیسا نہیں ہوگا، چاہے ٹیرف کی شرح زیادہ کیوں نہ ہو۔’

انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی نظام میں اتنی زیادہ لیکوڈیٹی موجود ہے کہ سرمایہ کار مارکیٹ سے نکلنے کا خطرہ نہیں لے سکتے، کیونکہ اپریل میں ری اسٹریٹیجی کرنے والے سرمایہ کاروں کو بعد میں مارکیٹ کی بحالی کا پیچھا کرنا پڑا۔

ٹیکس اور فیڈرل ریزرو

سرمایہ کاروں کی توجہ ان دنوں ٹرمپ کے بڑے ٹیکس اور اخراجاتی پیکج پر کانگریس میں ہونے والی طویل بحث پر بھی مرکوز ہے، جس پر جمعہ کو دستخط ہو چکے ہیں۔

اس بل کے نتیجے میں ٹرمپ کے 2017 کے ٹیکس کٹ کو مستقل حیثیت مل گئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹوں نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن بانڈ مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اس سے قومی قرض، جو اس وقت 36.2 کھرب ڈالر ہے، میں مزید 3 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔

ایس اینڈ پی 500 اور نیسڈیک انڈیکس جمعہ کو ریکارڈ سطح پر بند ہوئے اور یہ لگاتار تیسرے ہفتے انڈیکس میں اضافہ ہوا۔ یورپ کا اسٹاک 600 بینچ مارک تین ماہ میں 9 فیصد بڑھ چکا ہے۔

تاہم ٹیرف سے متعلق مہنگائی کے خدشات نے امریکی ٹریژری بانڈز اور ڈالر کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو کی پالیسی سے متعلق پیش گوئیاں بھی بدل گئی ہیں۔

شرح سود سے متعلق فیوچرز ظاہر کرتے ہیں کہ رواں ماہ فیڈ کی جانب سے شرح سود میں کمی کی توقع نہیں ہے، اور سال کے اختتام تک صرف دو چوتھائی پوائنٹ کمی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

ڈالر انڈیکس، جو امریکی کرنسی کو چھ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ماپتا ہے، 1973 کے بعد سے سال کی پہلی ششماہی میں بدترین کارکردگی کا شکار رہا ہے، اور اپریل 2 کے بعد سے 6.6 فیصد گر چکا ہے۔

ٹون فوکس بوسٹن کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر جان پینٹیکیڈس کا کہنا ہے کہ مارکیٹ 10 فیصد کی سطح کے عمومی ٹیرف کی توقع کر رہی ہے، لیکن اگر شرح سود بلند ہو گئی تو یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔

Comments

200 حروف