پالیسی ریٹ میں نصف کمی کے بعد آٹو لونز نے زبردست واپسی کی ہے، جس کا براہ راست اثر گاڑیوں کی مانگ میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ مالی سال 25-2024 کے پہلے 11 ماہ میں مسافر گاڑیوں، ایس یو ویز اور ہلکی کمرشل گاڑیوں (ایل سی ویز) کی مجموعی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ گزشتہ سال کی مندی کے بعد اب صنعت میں طلب کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

زیادہ وقت نہیں گزرا جب آٹو لونز میں قرض لینے کا عمل(نیٹ بوروئنگ) دوبارہ مثبت ہو گیا۔ نیٹ بوروئنگ کا مثبت ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نئے قرضوں کی مد میں جتنی رقم جاری کی جا رہی ہے وہ پہلے سے جاری شدہ قرضوں کی ادائیگیوں سے زیادہ ہے۔ مسلسل 26 ماہ تک نیٹ بوروئنگ منفی رہی، کیونکہ پالیسی ریٹ 13.75 فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا—جہاں وہ 12 ماہ تک برقرار رہا۔ اس عرصے میں جب 6 ماہ کی کائیبور شرح 23 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی، آٹو فنانسنگ بے حد مہنگی ہو گئی تھی، خاص طور پر اس وقت جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کار لونز سے متعلق اپنے ریگولیٹری تقاضے بھی سخت کر دیے تھے۔

نئی گاڑیوں کیلئے دیے جانے والے قرضے سخت جانچ پڑتال کے ساتھ دیے جا رہے تھے، کیونکہ بینکوں کی رسک برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ ریگولیشنز میں قرض کی مدت کم، اور ایکویٹی (ڈاؤن پیمنٹ) کی شرح زیادہ کر دی گئی تھی۔ درآمد شدہ گاڑیوں کی فنانسنگ پر پابندیاں عائد تھیں۔ صارفین نقد ادائیگی پر گاڑیاں خرید رہے تھے، اور آبادی کا زیادہ خوشحال طبقہ یہ بغیر کسی مشکل کے کر رہا تھا۔ نتیجتاً، مالی سال 23-2022 میں گاڑیوں کی فروخت پچھلے سال کے مقابلے میں 52 فیصد گر گئی، جبکہ مالی سال 24-2023 میں یہ مالی سال 22 کے مقابلے میں 64 فیصد کم ہو گئی—جبکہ مالی سال 22 وہ عرصہ تھا جب معیشت میں تیزی تھی، شرح سود کم تھی، خرچ کرنے کا رجحان تھا، اور کئی نئے آٹو مینوفیکچررز نے مارکیٹ میں قدم رکھا۔ ان میں سے کچھ نے خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی۔

اگرچہ اس سال طلب میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بہتری آئی ہے، مگر یہ اب بھی مالی سال 22 کی چوٹی کے مقابلے میں 46 فیصد کم ہے۔ شرح سود میں کمی آئی ہے، لیکن گاڑیوں کی قیمتیں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں، جبکہ کار فنانسنگ سے متعلق ریگولیشنز میں نرمی نہیں کی گئی، اور کائیبور اب بھی دو ہندسوں میں برقرار ہے۔

حکومت کی جانب سے درآمدی پالیسی میں نرمی مقامی اسمبلرز کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، لیکن اصل خطرہ اس وقت لاحق ہوگا جب استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو تجارتی بنیادوں پر لانے کی تجویز کو عملی جامہ پہنایا جائے گا—جس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو اگرچہ مقامی آٹو مینوفیکچررز (او ای ایمز) کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے، مگر حقیقت میں یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔

Comments

200 حروف