بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کرپٹو مائننگ اور بعض صنعتی شعبوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کی پاکستان کی تجویز مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات پہلے ہی بحران سے دوچار توانائی شعبے میں مزید پیچیدگیاں اور عدم توازن پیدا کرسکتے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں جس کی صدارت سینیٹر محسن عزیز کررہے تھے، سیکرٹری پاور ڈاکٹر فخرے عالم عرفان نے بیان دیا کہ توانائی شعبے سے متعلق تمام بڑے اقدامات کی منظوری آئی ایم ایف سے لینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے پاس خاص طور پر سردیوں میں اضافی بجلی موجود ہے لیکن آئی ایم ایف کسی بھی ایسے نرخ نظام کے بارے میں محتاط ہے جو مارکیٹ میں بگاڑ پیدا کرسکتا ہو۔

ستمبر 2024 میں پاور ڈویژن نے اکتوبر سے مارچ تک کے لیے مرحلہ وار اضافی بجلی کے استعمال پر مبنی 6 ماہ کے لئے پیکیج تجویز کیا جس کے تحت پچھلے سال کے استعمال کی بنیاد پر فی یونٹ 23 روپے کی قیمت پر بجلی فراہم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ تاہم، دو ماہ کی مشاورت کے بعد آئی ایم ایف نے ممکنہ مارکیٹ بگاڑ کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے صرف تین ماہ کے محدود پیکیج کی منظوری دی۔

نومبر 2024 میں پیش کیے گئے ایک منصوبے میں پاور ڈویژن نے تجویز دی کہ توانائی کے زیادہ استعمال والی صنعتوں — جیسے کاپر اور ایلومینیم پگھلانے والے یونٹس، ڈیٹا سینٹرز اور کرپٹو مائننگ — کے لیے 22 سے 23 روپے فی یونٹ کے حساب سے مرحلہ وار اور ہدفی نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے۔ تجویز کا مقصد اضافی بجلی کے استعمال میں اضافہ کرنا اور کیپیسٹی چارجز میں کمی لانا تھا۔ تاہم آئی ایم ایف نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ مخصوص شعبوں کے لیے ٹیکس چھوٹ جیسا ہے، جو ماضی میں معاشی عدم توازن کا باعث بنتی رہی ہے۔

ڈاکٹر عرفان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تاحال آئی ایم ایف نے اس منصوبے کی منظوری نہیں دی اور مزید بتایا کہ یہ تجویز ورلڈ بینک اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے زیرِ غور بھی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت نے اس تجویز کو واپس نہیں لیا اور وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ منصوبے کو بہتر بنایا جا سکے۔

اجلاس کے دوران حکومت اور شیڈول بینکوں کے درمیان حالیہ معاہدے پر بھی بحث ہوئی جس کا مقصد 1.275 ٹریلین روپے کے گردشی قرضے میں کمی لانا ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے اس معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں کو بندوق کی نوک پر قرضے دینے پر مجبور کیا گیا، اگر میں بینکر ہوتا تو یہ پیشکش مسترد کر دیتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بوجھ کا خمیازہ عوام کو مستقبل میں مزید محصولات کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

سیکرٹری پاور نے سینیٹر شبلی فراز کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ قرضوں کی واپسی کے لیے موجودہ ڈیٹ سروسنگ سرچارج (ڈی ایس ایس) جو کہ 3.23 روپے فی یونٹ ہے، آئندہ پانچ سے چھ سال تک جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بروقت سبسڈی فراہم کرنے کے باعث گردشی قرضے کے بہاؤ میں کمی آئی ہے۔ صارفین کی سہولت سے متعلق ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ 5 لاکھ سے زائد افراد نے ”اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ“ ایپ ڈاؤن لوڈ کی ہے جس کے ذریعے صارفین اپنی میٹر ریڈنگ کی تصاویر اپلوڈ کر کے ممکنہ طور پر زائد بلنگ سے بچ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایپ جلد کے-الیکٹرک (کے ای) صارفین کے لیے بھی دستیاب ہوگی۔

کمیٹی نے وفاقی وزیرِ توانائی کی غیر حاضری پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا، جن سے نجی پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور توانائی کے شعبے میں پائی جانے والی غیر موثریت سے متعلق سوالات کے جوابات متوقع تھے۔

سینیٹر محسن عزیز نے بعض نجی پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کے قیام کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ان کمپنیوں سے حاصل شدہ اضافی منافع واپس کیوں نہیں لیا گیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے الزام عائد کیا کہ منصوبوں کی لاگت کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ زیادہ منافع کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گردشی قرضے کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ اُن کے بقول حکومتی ناکامیوں کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔

سینیٹرز نے جبری لوڈشیڈنگ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، خصوصاً تھرپارکر، مٹیاری اور عمرکوٹ جیسے علاقوں میں جہاں صارفین بل ادا کرنے کے باوجود روزانہ 14 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا کررہے ہیں۔

سینیٹر پوجو بھیل نے مقامی افسران پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ غیر قانونی کنکشن دینے اور منقطع شدہ بجلی بحال کرنے کے عوض رشوت لیتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ نظام کی ناکامی کے باعث وہ صارفین بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔

جواب میں ڈاکٹر عرفان نے وضاحت کی کہ 20 فیصد سے زائد نقصانات والے علاقوں میں ریونیو کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک افسوسناک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیپکو کا ایک ملازم کنکشن منقطع کرنے کی مہم کے دوران چاقو کے وار سے جان کی بازی ہار گیا۔

اس موقع پر کے الیکٹرک کی چیف ڈسٹری بیوشن آفیسر سعدیہ دادا نے بتایا کہ کے ای کے 2,100 فیڈرز میں سے تقریباً 30 فیصد فیڈرز پر بجلی چوری کے باعث لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، جو اکثر غیر رسمی آبادیوں میں کنڈوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صارفین کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اب بل اقساط میں ادا کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ 58 فیصد صارفین پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں آتے ہیں، جو فی یونٹ 10 روپے ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی شراکت داروں کی منظوری کے بعد حکومت 250 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرے گی جب کہ بجلی چوری پر قابو پانے کے لیے مزید ٹیکنالوجی پر مبنی حل بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ اب تک 5 لاکھ افراد نے میٹر ریڈنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کی ہے جن میں سے 2 لاکھ 50 ہزار صارفین باقاعدہ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔

اجلاس کے دوران سینیٹر حاجی ہدایت اللہ نے پشاور میں واقع ایک جائیداد پر 23 لاکھ روپے کی اوور بلنگ کا معاملہ اٹھایا، جسے پہلے ہی پیسکو کلیئر کر چکا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پیسکو کے افسران نے 3 لاکھ روپے میں بل نمٹانے کی پیشکش کی جسے انہوں نے کھلی کرپشن قرار دیا۔ سیکرٹری پاور نے معاملے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر 2025

Comments

200 حروف