یقیناً یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ بجٹ 2026 میں بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے کسی ریلیف کا اعلان کیا جاتا۔ یہ کافی حد تک متوقع تھا۔ رئیل اسٹیٹ کی لابی نہ صرف مؤثر، منظم اور سرگرم رہی ہے بلکہ اس نے بار بار اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا۔ تاہم، بہت سے لوگ بجٹ میں ہونے والے اعلانات پر حیران رہ گئے، جنہیں ایک ساتھ متضاد اور ناکافی قرار دیا جا رہا ہے — خاص طور پر ایسے وقت میں جب اس ”بیمار“ شعبے کو سہارا دینے کی اشد ضرورت ہے۔
خلاصہ کچھ یوں ہے: خریداروں کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مختلف سطحوں پر شرحیں کم کر دی گئی ہیں، جبکہ فروخت کنندگان پر کیپیٹل گین ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جو کہ جائیداد کی مالیت سے منسلک ہوگا۔ تمام جائیدادوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، 10 مرلے تک کے گھروں اور 2,000 مربع فٹ تک کے فلیٹس کی تعمیر پر ٹیکس کریڈٹ دیا گیا ہے۔ دوسری جانب، نان فائلرز کے لیے جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری مکمل طور پر ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔
بظاہر ان پالیسی اقدامات کے پیچھے ایک واضح منطق نظر آتی ہے — جو ان لوگوں کے لیے خاصی دلچسپی کا باعث ہے جو پالیسی سازی کو باریکی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک عام ناظر کو یہ تضاد محسوس ہو سکتا ہے کہ ایک طرف ٹیکس میں کمی اور دوسری طرف اضافہ کیا جا رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک اعلیٰ سطح کی پالیسی سازی ہے — جو خود میں مشکوک بھی معلوم ہوتی ہے۔
خریداروں پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی اور فروخت کنندگان پر کیپیٹل گین ٹیکس میں اضافہ دراصل ٹیکس کے بوجھ کو لین دین سے ہٹا کر دولت کے انبار پر منتقل کرتا ہے۔ کیپیٹل گین ٹیکس ایک ترقی پسند ٹیکس ہے — یہ فروخت پر حاصل ہونے والے حقیقی منافع کو اس کی کمائی کے تناسب سے ٹیکس کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ود ہولڈنگ ٹیکس ایک رجعت پسند ٹیکس ہے، جو ہر خریدار پر یکساں لاگو ہوتا ہے چاہے وہ نفع میں ہو یا نہیں۔ چنانچہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی حقیقی، طویل المدتی خریداروں کے لیے لین دین کی لاگت کم کرتی ہے۔ دوسری طرف، کیپیٹل گین ٹیکس میں اضافہ قیاس آرائی پر مبنی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے — جیسے جائیداد کی خرید و فروخت کے ذریعے مختصر مدتی نفع کمانا، جس سے قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے۔
چھوٹے گھروں اور اپارٹمنٹس کی تعمیر پر ٹیکس کریڈٹ کا نفاذ ممکنہ طور پر حقیقی، طلب پر مبنی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتا ہے اور نتیجتاً ٹیکس نیٹ کو وسعت دے سکتا ہے۔ اسی طرح، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر نافذ بالواسطہ ٹیکس یعنی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنا بھی ایک معقول قدم ہے — جو کہ رسمی لین دین کی حوصلہ شکنی کرتا تھا۔
یہ تمام اقدامات اس فیصلے کے ساتھ جُڑے ہیں کہ نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری سے باہر کر دیا گیا ہے — جو کہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو دستاویزی بنانے کی کوشش کی واضح علامت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلڈرز اور ڈیولپرز کو ٹیکس کے اضافے سے اتنا خوف نہیں جتنا کہ نان فائلرز پر عائد پابندی سے ہے۔ چونکہ یہ شعبہ بڑی حد تک غیر دستاویزی سرمائے پر انحصار کرتا ہے، اس اقدام سے ممکنہ خریداروں کی تعداد میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ اگر اس پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ غیر رسمی سرمایہ مارکیٹ سے نکل جائے اور لین دین کی رفتار سست ہو جائے۔ لیکن یہ ایک فیصلہ کن لمحہ بھی بن سکتا ہے: اگر نان فائلرز کو باہر کر دیا گیا تو قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ کاری ختم ہو سکتی ہے، اور حقیقی رئیل اسٹیٹ سرگرمی کو جڑ پکڑنے کا موقع مل سکتا ہے۔
ٹیکس کریڈٹ (اگرچہ اس کی حدود اور طریقہ کار ابھی غیر واضح ہے)، حقیقی خریداروں کے لیے کم ٹرانزیکشن لاگت، اور نان فائلرز پر پابندی — ان تمام اقدامات کا مجموعی اثر یہ ہو سکتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا رسمی اور دستاویزی شعبہ متحرک ہو اور ٹیکس نیٹ وسعت اختیار کرے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے مؤقف پر قائم رہے۔رئیل اسٹیٹ لابی پہلے ہی وزیراعظم کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور ان اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر وزیراعظم واقعی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں، تو یہی وہ لمحہ ہے جب انہیں ثابت کرنا ہو گا — چاہے اس کے نتیجے میں سرمایہ ملک سے چلا جائے۔
Comments