پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ کی مجموعی صلاحیت 31 مارچ 2025 تک بڑھ کر 2,813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے، جیسا کہ پاکستان اکنامک سروے 2024-25 میں بتایا گیا ہے۔ یہ موجودہ مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران 12 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
یہ اضافہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 300 میگاواٹ سے زائد کا ہے، جب نیٹ میٹرنگ کی صلاحیت تقریباً 2,500 میگاواٹ تھی، جیسا کہ نیپرا کی اسٹیٹ آف دی انڈسٹری رپورٹ 2024 میں درج ہے۔
ماہرین کے مطابق نیٹ میٹرنگ کی اس اضافی 300 میگاواٹ صلاحیت کی بڑی وجہ شمسی پینلز کی قیمتوں میں نمایاں کمی اور صارفین کو حاصل مالی فوائد ہیں، جنہوں نے اس نظام کو مزید پرکشش بنا دیا ہے۔
سولر نیٹ میٹرنگ کا نظام صارفین کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں کی چھتوں پر شمسی پینل نصب کریں، دن کے وقت پیدا ہونے والی زائد بجلی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کو فروخت کریں، اور رات کے وقت بجلی خرید کر اپنے ماہانہ بلوں کا بوجھ کم کریں — یوں وہ نہ صرف قومی گرڈ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ مالی فائدہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے پھیلاؤ سے وولٹیج میں استحکام آیا ہے اور بجلی کی ترسیل و تقسیم میں ہونے والے نقصانات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، جو بجلی کے نظام کے لیے عملی اور مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔
تاہم اس نمایاں ترقی کے باوجود نیٹ میٹرنگ مجموعی صلاحیت کے مقابلے میں اب بھی ایک چھوٹا سا حصہ رکھتی ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان نے حالیہ برسوں میں 20,000 سے 22,000 میگاواٹ صلاحیت کے سولر آلات درآمد کیے، جن میں سے اکثریت آف گرڈ تنصیبات میں استعمال ہو رہی ہے، خاص طور پر زرعی، رہائشی اور صنعتی شعبوں میں۔
یہ صاف توانائی کا رجحان ملک کے بجلی کے شعبے میں جاری وسیع تر پیش رفت کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے۔
مارچ 2025 تک پاکستان کی مجموعی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 46,605 میگاواٹ تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کے 45,888 میگاواٹ کے مقابلے میں 1.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔
اس میں 884 میگاواٹ کے سوکی کناری ہائیڈرو پاور منصوبے کا عملی آغاز، نئے شمسی، ہوائی اور بگاس (گنے کے فضلے) پر مبنی منصوبوں کی پیش رفت اور بعض نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے بجلی خریداری معاہدوں (پی پی ایز) کی منسوخی شامل ہیں۔
بجلی کی مجموعی صلاحیت میں سے اب 44.3 فیصد حصہ ہائیڈرو، نیوکلیئر اور قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل ہو رہا ہے، جو تھرمل ذرائع سے بتدریج انحراف کی نشاندہی کرتا ہے، جب کہ تھرمل توانائی اب 55.7 فیصد پر محدود ہو چکی ہے۔
قابلِ تجدید توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق ہائیڈل ذرائع کا حصہ 24.4 فیصد، جوہری توانائی کا حصہ 7.8 فیصد، شمسی و ہوائی توانائی (بشمول نیٹ میٹرنگ): 12.2 فیصد شامل ہے۔
اسی دوران خالد ولید جو سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ توانائی کے ماہر ہیں، نے نیٹ میٹرنگ کے لیے مجوزہ ٹیرف میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ اقدام صاف توانائی کی ترقی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حکومت موجودہ 27 روپے فی یونٹ نیٹ میٹرنگ بائی بیک ریٹ کو کم کر کے 10 روپے کرنے پر غور کر رہی ہے، جس پر خالد ولید نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام صاف توانائی کی حوصلہ شکنی کرے گا اور حالیہ پیش رفت کو الٹا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان کے مطابق اگر حکومت کو نرخ میں کمی کرنی ہے تو اسے مرحلہ وار انداز میں 15 سے 18 روپے فی یونٹ تک لانا چاہیے، تاکہ سرمایہ کاروں اور صارفین کا اعتماد برقرار رہے اور نیٹ میٹرنگ کا فروغ جاری رہ سکے۔
دریں اثنا انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) 2022-31 کے مطابق حکومت کا ہدف ہے کہ 2031 تک نیٹ میٹرنگ کے تحت 3,420 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کی جائے۔
نیپرا کا کہنا ہے کہ یہ ہدف نہ صرف حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ( ڈسکوز) چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب کے جاری رجحان میں رکاوٹیں ڈالنے سے گریز کریں تو یہ ہدف متجاوز بھی ہو سکتا ہے۔
Comments