بدھ کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حکومت ملک کے پائیدار مالیاتی سفر میں ایک اہم سنگِ میل کا اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہی ہے، جس کا اظہار 20 سے 30 ارب روپے مالیت کے پہلے گرین سکوک کے اجرا سے ہوتا ہے۔ تاہم دو اہم مشاہدات قابل توجہ ہیں:
اوّل، اس حقیقت سے قطع نظر کہ سکوک اسلامی مالیات کا ایک اہم ستون ہے، یہ دراصل حکومت کی طرف سے قرض لینے کا ذریعہ ہے اور اس پر منافع کی شرح مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق طے کی جائے گی۔ دوم، سکوک کی بتائی گئی رقم — یعنی 20 سے 30 ارب روپے — اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت خود بھی اس بات سے غیر یقینی کا شکار ہے کہ عوام اس سرمایہ کاری میں کتنی دلچسپی لیں گے۔ یہ دلچسپی بلاشبہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری بڑھتی کشیدگی سے متاثر ہوئی ہے جس کا عکس پاکستانی بانڈز کی غیر مستحکم حرکات میں واضح ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ تینوں بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو کبھی بھی سرمایہ کاری کی قابل درجہ بندی نہیں دی۔ اگرچہ گزشتہ ماہ ایک ایجنسی، فِچ، نے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری کی، تاہم یہ بہتری ”نمایاں قرضہ جاتی خطرے“ سے ”انتہائی قیاس آرائی پر مبنی“درجہ کی جانب تھی — جس کی تعریف یہ ہے کہ اگرچہ ڈیفالٹ کا خطرہ موجود ہے، تاہم ادائیگی کی صلاحیت ابھی باقی ہے، جو کاروباری یا معاشی حالات میں خرابی کی صورت میں شدید متاثر ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں، باقی دونوں ریٹنگ ایجنسیوں — اسٹینڈرڈ اینڈ پُورز اور موڈیز — نے فچ کی طرح پاکستان کی درجہ بندی میں کوئی بہتری نہیں کی۔ اور بھارت کے حملے اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں کو مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد، موڈیز نے واضح کیا ہے کہ اگر دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا، تو جنگ کی قیمت پاکستان کے لیے بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ محدود گنجائش سے مراد انتہائی سخت آئی ایم ایف پروگرام پر قائم رہنا ہے، جس کی کسی بھی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں پروگرام کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ساتھ ہی تین دوست ممالک — چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات — کی جانب سے دیے گئے 16 ارب ڈالر کے رول اوورز کی واپسی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اب تک سب سے بڑا بجٹ اخراجات کا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے، اور یہ لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرض لینے پر زیادہ انحصار کررہی ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 18.877 کھرب روپے کے اخراجات میں سے صرف سود کی ادائیگی کے لیے 9.775 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
گزشتہ مالی سال مارک اپ کے لیے مختص بجٹ 7.302 کھرب روپے تھا، جسے نظرثانی شدہ تخمینوں میں بڑھا کر 8.26 کھرب روپے کر دیا گیا — جو کہ 13 فیصد کا اضافہ تھا۔ ملک میں بجٹ میں مختص مارک اپ سے زیادہ اخراجات معمول کی بات ہیں کیونکہ بجٹ میں اخراجات بڑھتے ہیں، اور اس بات کا امکان ہے کہ اس سال بھی خاص طور پر سرحد پار تنازعہ کے پیش نظرمارک اپ بجٹ میں متعین رقم سے زیادہ ہو گا۔
ملکی معیشت انتہائی نازک حالت میں ہے، جس کی نشاندہی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے کم ہونے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر خریدنے سے رقوم کی ترسیل کو سہارا دینے، اور گزشتہ تین سالوں سے بڑی صنعتوں کی منفی صورتحال سے ہوتی ہے۔ آزاد ماہرین اقتصادیات نے اس بات کی نشاندہی کی ہے، جسے اسٹیٹ بینک نے ابھی تک مسترد نہیں کیا۔
صورتحال میں تیزی سے بگڑاؤ آسکتا ہے اگر مودی کی جانب سے انڈس واٹرز معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی وسط مدتی یا طویل مدتی میں حقیقت بن جاتی ہے، کیونکہ اس سے پاکستان جو پہلے ہی پانی کی کمی والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، ایک انتہائی پانی کی کمی کا شکار ملک بن جائے گا، جسے بھارت کی مرضی کے مطابق خشک سالی یا سیلاب کا سامنا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں، صرف ”گرین سکوک“ کا نام دینے سے پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا خاتمہ نہیں ہو سکتا جن کا سامنا وہ حالیہ برسوں میں کرچکا ہے۔
لہٰذا یہ امید کی جانی چاہیے کہ تمام متعلقہ فریق اس صورتحال کا مکمل ادراک کریں اور اس ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کریں یقیناً یہ ایک انتہائی چیلنجنگ کام ہے، لیکن اس کا بوجھ متعلقہ فریقوں پر ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments