پاکستان کا کپاس کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے جہاں اتار چڑھاؤ کے رجحانات، اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر گیا جس سے متعلقہ فریقین کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے ”برابر کے مواقع“ کی ہدایت کے باوجود پاکستان کاٹن گرومرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 120 اسپننگ ملیں اور 800 جننگ فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں جبکہ حکومتی مذاکرات کسی عملی حل تک نہیں پہنچ سکے۔

کپاس کے کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کی پالیسیاں ان کے روزگار کے لیے خطرہ بن چکی ہیں،انہوں نے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین نے کپاس کی کاشت کی بحالی اور اس شعبے کے استحکام کے لیے ایک جامع قومی پالیسی کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔

سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے ہیڈ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی، ساجد محمود نے کہا کہ ”ترقی کی بنیاد مؤثر پالیسی پر ہے“، اور واضح کیا کہ جب تک بنیادی ساختی اصلاحات نہیں کی جاتیں، شعبے کی بحالی ممکن نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومتی بے حسی، صنعتوں کی وسیع پیمانے پر بندش اور پالیسی کے فقدان نے نہ صرف معیشت کو کمزور کیا بلکہ بیروزگاری میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال نے ایک جامع اور متحد قومی حکمت عملی کی فوری ضرورت کو اجاگر کردیا ہے۔

بڑھتے ہوئے بحران کے پیشِ نظر کاشتکاروں، مل مالکان اور ماہرین سمیت تمام متعلقہ فریقین حکام سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری اور مؤثر اقدامات کریں ۔ موجودہ حالات پاکستان کے کپاس کے شعبے کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے ایک جامع اور ہم آہنگ حکمت عملی کی اشد ضرورت کو نمایاں کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مقامی کپاس منڈی میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا، اگرچہ اسپاٹ ریٹس میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ تاہم، آخری دو دنوں میں کاروباری سرگرمیاں نسبتاً بہتر رہیں۔ کپاس کے سودے فی من 15,500 روپے سے 17,500 روپے کے درمیان طے پائے جو معیار اور ادائیگی کی شرائط پر منحصر تھے۔ہفتے بھر ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) سے متعلق مشاورت کا سلسلہ جاری رہا اور 11 اپریل کو اس حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزیر احسن اقبال، وزیر تجارت جام کمال، کپاس جنرز اور اپٹما کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ اصولی طور پر ای ایف ایس ختم کی جاچکی ہے تاہم اس فیصلے کی حتمی منظوری وزیراعظم شہباز شریف دیں گے۔ ہفتے بھر اس حوالے سے مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں۔

جمعرات کو ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ برآمدات کے ذریعے قومی آمدنی میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے مقامی صنعتوں کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے اور آئندہ بجٹ کی تیاری کے لیے صنعتی و تجارتی تنظیموں سے مشاورت اور ان کی تجاویز شامل کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے یہ بات ایک جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی، جو ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) پر منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران اُس کمیٹی کی عبوری سفارشات پیش کی گئیں جو ای ایف ایس کی مؤثریت بڑھانے اور برآمدی شعبے کو اس کے فوائد یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ برآمدی صنعتوں کے لیے خام مال اور مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کی غرض سے اسکیم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کمیٹی کی سفارشات پر شعبے کے ماہرین سے مزید مشاورت کو یقینی بنایا جائے۔انہوں نے کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ مزید مشاورت کے بعد اپنی عبوری سفارشات کو حتمی شکل دے کر جلد از جلد رپورٹ پیش کرے۔

مزید یہ کہ نئی سیزن کے لیے کپاس کی کاشت کے حوالے سے مختلف آراء گردش کر رہی ہیں، جبکہ شدید پانی کی قلت کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔

ایک اور خبر جو زیرِ گردش ہے وہ یہ ہے کہ “کوٹن کونسل انٹرنیشنل نے پاکستان میں چین کے سنکیانگ علاقے کی کپاس کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس معاملے کے ممکنہ اثرات پر بھی بات چیت جاری ہے۔

Comments

200 حروف