آج کے بجٹ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے لیے شاید سب سے اہم بات ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پروسیڈز لیوی تھی – جو کہ ایک 5 فیصد ودہولڈنگ لیوی ہے، جو ملک کے اندر اور بین الاقوامی ڈیجیٹل وینڈرز کو کی جانے والی ادائیگیوں پر لاگو ہوگی – اس کے ساتھ ساتھ 18 فیصد ای کامرس ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے۔

پہلی بار ”ای کامرس“ کی باضابطہ تعریف متعارف کروائی گئی ہے، جبکہ ”آن لائن مارکیٹ پلیس“ کی اصطلاح کو وسعت دیتے ہوئے ان تمام قابلِ ٹیکس سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، بشمول ویب سائٹس اور موبائل ایپلیکیشنز، کے ذریعے کی جاتی ہیں۔

اس خبر پر اسٹارٹ اپ دنیا کا ردعمل مختلف رہا ہے۔

ڈیٹا دربار کے شریک بانی مطہر خان نے کہا کہ بنیادی طور پر اسٹارٹ اپس کے حوالے سے واحد بڑا فرق یہ نیا ای کامرس کا ٹیکسیشن ریجیم ہے۔ وہ مارکیٹ پلیسز کو ودہولڈنگ ٹیکس ریجیم میں لانا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس آمدنی پر نہیں بلکہ ریونیو پر مبنی ہے۔ مارکیٹ پلیسز جو کما رہی ہوتی ہیں وہ اصل میں گراس مرچنڈائز ویلیو (جی ایم وی) نہیں ہوتی، بلکہ حقیقی آمدنی ہوتی ہے۔ ٹیکس تو نیٹ انکم یا ٹیکس سے قبل منافع پر لگنا چاہیے۔ تو یہ پہلی خرابی ہے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکومت نہ صرف بینکوں کو ٹیکس اکٹھا کرنے کا کام سونپ رہی ہے، جو کہ اس کے عادی ہیں، بلکہ کوریئر کمپنیوں کو بھی، جنہوں نے یہ کام پہلے کبھی نہیں کیا۔

بینک شاید یہ صلاحیت رکھتے ہوں، لیکن بینک ہی واحد گیٹ وے فراہم کنندہ نہیں ہیں۔ گیٹ وے نان بینک ادارے بھی فراہم کرتے ہیں، جو عموماً چھوٹے ہوتے ہیں۔ اب ان پر ودہولڈنگ کا بوجھ ہے، اور ساتھ ہی کوریئر کمپنیوں پر بھی، جو پہلے اس عمل سے ناواقف تھیں، اور اب یہ ایک اضافی لاگت بن گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ای کامرس کی قیمتیں اوسطاً عام ریٹیل مارکیٹ کے مقابلے میں پہلے ہی کچھ زیادہ ہوتی ہیں، اور اب یہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ اور اب حکومت چاہتی ہے کہ ای کامرس کمپنیاں اور کوریئر کمپنیاں ٹیکس کلیکشن اور فروخت سے متعلق ڈیٹا بھی ان کے ساتھ شیئر کریں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کیسے نافذ العمل ہوگا۔

دوسری طرف، بیوٹی پلیٹ فارم ہائی فائی (Highfy) کے بانی و سی ای او حنظلہ راجہ، نے پالیسیوں کے حوالے سے مثبت رویہ اختیار کیا۔

انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ “ڈیجیٹلائزیشن، غیر دستاویزی معیشت کو رسمی بنانے، اور ایک ونڈو آپریشنز کے ذریعے کمپلائنس کو سہل بنانے پر توجہ دینا ایک حوصلہ افزا قدم ہے، خاص طور پر چھوٹے کاروباروں اور اسٹارٹ اپس کے لیے جو طویل عرصے سے بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہیں۔

ان کے مطابق، یہ بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اب ڈیجیٹل اور کاروباری معیشت کو مختلف انداز سے دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی، ای کامرس، اور ڈیجیٹل تجارت کو ٹیکس نیٹ میں تسلیم کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ حکومت اس شعبے کو سنجیدگی سے لینا شروع کر چکی ہے، جو کہ حسب ضرورت پالیسی سازی کی جانب پہلا ضروری قدم ہے۔

ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر جو سینکڑوں برانڈز اور پارٹنرز کے ساتھ قریبی کام کرتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ متضاد پالیسیز اور ریگولیٹری غیر یقینی صورتحال کس طرح ترقی کی رفتار کو سست کرتی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکسیشن کے لیے ایک متحدہ حکمتِ عملی اور آن لائن کامرس کے لیے واضح ایس او پیز پورے ایکو سسٹم میں اعتماد اور طویل مدتی قدر پیدا کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔

البتہ، اصل موقع اس میں ہے کہ حکومت ابتدائی مرحلے کے کاروباروں کے لیے سادہ ٹیکس ریجیم، آسان قرض تک رسائی، اور ایسی پالیسی سپورٹ فراہم کرے جو صرف بڑے شہروں تک محدود نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم پہلے ہی دکھا چکا ہے کہ وہ تیزی اور وسعت کے ساتھ اختراعات (innovate) کر سکتا ہے۔ درست عوامی و نجی شراکت داری کے ساتھ ہم اس صلاحیت کو طویل مدتی اقتصادی قدر میں بدل سکتے ہیں۔ ۔۔ یہ بجٹ ایک آغاز ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ اسٹارٹ اپ کمیونٹی کے ساتھ زیادہ مستقل روابط کی راہ ہموار کرے گا۔

ادھر عدنان علی، سی ای او اور ڈائریکٹرپے فاسٹ (PayFast)، نے وضاحت کی کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ٹیکس عائد کرنا ای کامرس، ڈیجیٹل سروسز اور اسٹریمنگ پر حتمی صارفین کے لیے اخراجات میں اضافہ کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع ہوگا کیونکہ یہ ان ڈیجیٹل اور سرحد پار آمدنی کو بھی شامل کرے گا جو پہلے ایف بی آر کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں، اور اس سے برابری کو فروغ ملے گا کیونکہ غیر ملکی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کیش آن ڈیلیوری (سی او ڈی) فروخت بھی ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گی۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ بہت سے بین الاقوامی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز مقامی ادائیگی کے گیٹ وے استعمال نہیں کرتے، اور ان کی مالی ادائیگیاں بین الاقوامی سطح پر طے ہوتی ہیں، لہٰذا اس کا نفاذ ایک چیلنج رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشنز جو بین الاقوامی گیٹ ویز کے ذریعے ہوتی ہیں، ان کے بارے میں عملی اصولوں میں وضاحت دینا ضروری ہے۔

ٹیکس کا بوجھ اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے

ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز پروسیڈز لیوی سے ہٹ کر کسٹمر انگیجمنٹ پلیٹ فارم مرجن (Mergn) کے بانی اور فُوڈپانڈا پاکستان کے سابق سی ای او نعمان سکندر مرزا کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ اسٹارٹ اپس کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ انہیں وزیر خزانہ کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات سے مایوسی ہوئی ہے۔

نعمان مرزا نے کہا کہ جو ڈویلپرز اور ملازمین ہماری جیسی ٹیک اسٹارٹ اپس میں کام کرتے ہیں، وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جنہیں ٹیکس میں ریلیف دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں واقعی امید کر رہا تھا کہ ہمارے ملازمین کو کچھ ریلیف ملے تاکہ ملازمین اور کاروبار دونوں کو کچھ نہ کچھ سہارا حاصل ہو۔ ہماری جیسی اسٹارٹ اپس کے لیے اس بجٹ کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ پہلے ہی ہر سائز کی کمپنیوں کے لیے ایک مسئلہ ہے، اور خاص طور پر اسٹارٹ اپس کے لیے، جن کے پاس عملہ محدود ہوتا ہے اور وہ ایک بدحال معاشی صورتحال میں کاروبار چلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی کمپنیاں اپنے ملازمین کو مسابقتی تنخواہیں دینے میں جدوجہد کرتی ہیں۔

دریں اثنا ہیلتھ ٹیک کمپنی ایزی شفا (EZShifa) کے چیف آپریٹنگ آفیسرعدنان صدیقی، نے کہا کہ اسٹارٹ اپس کے لیے مخصوص پالیسیوں سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ مجموعی استحکام اور سیکیورٹی لائیں کیونکہ یہی چیز سرمایہ کاروں کے لیے اہم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے پاس جو بھی سرمایہ کار آتا ہے، پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کیسی ہے اور کیا پالیسیوں میں تسلسل ہو گا۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ میری رائے میں حکومت نے موجودہ سنگین حالات میں جو کچھ کر سکتی تھی وہ کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت سے کوئی خاص توقعات نہیں ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ سمجھتے ہیں حکومت مدد نہیں کرنا چاہتی، بلکہ اس لیے کہ حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں۔

Comments

200 حروف