پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان حالیہ اسٹاف سطح کے معاہدے کے بعد، جس کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی گئی ہے جو ایکسٹینڈڈ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت ہے، اب ایک اور آئی ایم ایف مشن پاکستان آیا ہے۔ اس بار اس مشن کا مقصد حکومتی اداروں اور معیشت کے مختلف شعبوں میں گورننس میں اصلاحات اور بدعنوانی و کرپشن کے خاتمے کی کوششوں کا جائزہ لینا ہے۔

یہ دوسرا مشن ہے جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے گزشتہ دو ماہ کے دوران ”کرپشن اور گورننس ڈائگنوسٹک مشن“ کے تحت پاکستان بھیجا ہے۔ یہ مشن عدلیہ، بینکاری شعبے، اینٹی کرپشن باڈیز، اوگرا اور دیگر محکموں سمیت 30 سے زائد سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے جامع مشاورت کرے گا۔

مشن کے ایجنڈے کا بنیادی محور گورننس میں دور رس اصلاحات، معیشت کی ساخت کی ازسرِ نو تشکیل، اور بدعنوانی و ادارہ جاتی نااہلی کا فوری تدارک ہے — وہ عناصر جو طویل عرصے سے ملکی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان خرابیوں نے مفاد پرستی، مشکوک سودے بازی اور غیر شفاف رویوں کو فروغ دیا ہے، اور یو معاشی نظم و نسق میں نااہلی اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ وہ نظام کا حصہ بن چکی ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے شفافیت اور جوابدہی کو پائیدار معاشی معاونت کے لیے لازم قرار دیے جانے کے بعد یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ مشن اس امر کا گہرائی سے جائزہ لے کہ کس طرح حکومتی پالیسیاں اور طویل المدتی مداخلتیں مختلف شعبوں میں بنیادی معاشی اصولوں کو بارہا مجروح کرتی رہی ہیں۔ ان اقدامات نے ایک مؤثر اور منڈی پر مبنی معیشت کی جانب پیش رفت کو روکے رکھا ہے اور گہرے بگاڑ پیدا کیے ہیں — جنہوں نے مفاد پرستی، کرپشن اور نظام کی ناکامی کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ عوامی اور نجی دونوں اداروں میں ان مسائل کو جڑ پکڑنے کا موقع دیا۔

ایندھن کی قیمتوں میں بگاڑ کی ایک نمایاں مثال وہ دہائیوں پرانا کراس سبسڈی کا نظام ہے جو ”ان لینڈ فریٹ ایکوالائزیشن مارجن“ (آئی ایف ای ایم) کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے۔ یہ نظام 1960 کی دہائی سے رائج ہے اور ملک بھر میں ایندھن کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر یکساں رکھنے کا باعث بنتا ہے، چاہے ترسیل کی اصل لاگت کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ آئی ایف ای ایمم سے قبل، وہ شہر جو بندرگاہوں یا ریفائنریوں سے دور واقع تھے، انہیں طویل فاصلے کی وجہ سے بلند ترسیلی اخراجات کے باعث ایندھن مہنگے داموں خریدنا پڑتا تھا۔

ایندھن کی قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے اور ملک بھر کے صارفین کے لیے مقام کی بنیاد پر قیمت میں فرق ختم کرنے کے ظاہری مقصد کے تحت آئی ایف ای ایم کا نظام متعارف کرایا گیا، یہ ایک قسم کا سرچارج ہے جو تمام پٹرولیم مصنوعات پر عائد کیا جاتا ہے تاکہ ترسیلی اخراجات کو پورا کیا جاسکے اور ملک بھر میں ڈپو سطح پر قیمتوں کو یکساں رکھا جاسکے۔

اگرچہ اس کا مقصد شفافیت کو فروغ دینا ہوسکتا ہے ، لیکن عملی طور پر اس کا طویل عرصے سے فائدہ ٹرانسپورٹرز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) نے اٹھایا ہے، جو بنیادی طور پر غیر ضروری فریٹ چارجز اور جعلی لاجسٹک دعووں کے ذریعے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یکساں قیمتوں کے نظام کے تحت طے شدہ فریٹ چارجز اور ایندھن کی منزل تک پہنچنے کی نگرانی کے مؤثر طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے، ایک علاقے کے لیے مختص مصنوعات کو آسانی سے دوسرے علاقوں میں زائد منافع کے لیے بیچ دیا جاسکتا ہے۔ اس سے سپلائی چین کے اعتبار کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مختلف علاقوں میں مصنوعی قلت اور غیر مستحکم دستیابی پیدا ہوسکتی ہے۔

یہ نظام شفافیت کے واضح فقدان کا شکار ہے جس کی وجہ سے ریگولیٹر کیلئے یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا نقل و حمل کرنے والے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں (او ایم سیز) غیر منصفانہ یا استحصالی طریقوں میں ملوث ہیں۔

اگرچہ حالیہ مہینوں میں حکومتی حلقوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بارے میں بات چیت دیکھنے میں آئی ہے ، لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات ابھی تک نظر نہیں آئے۔

اس سمت میں کوئی بھی سنجیدہ قدم غالباً ان مفادات کے شدید مزاحمت کا سامنا کرے گا جو موجودہ قیمتوں کے ڈھانچے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کا مشن اس اہم مسئلے کو اوگرا اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اپنی مشاورت میں اٹھائے۔

اگرچہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا شعبہ واحد ایسا شعبہ نہیں ہے جسے اصلاحات کی ضرورت ہو، تاہم یہ معیشت کے وسیع تر چیلنجز کا ایک عکس اور ساختی ناکامی کی ایک واضح مثال ہے — جہاں بگڑے ہوئے حوصلہ افزائی کے نظام، غیر شفاف طریقے اور جڑ پکڑے ہوئے مفادات اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں اور ایک مؤثر، منڈی پر مبنی فریم ورک کی طرف منتقلی کو روکنے کا سبب بنتے ہیں۔

پاکستان کے گورننس میں ضروری اصلاحات کرنے کا ریکارڈ عموماً بیرونی دباؤ یا بحرانوں کے دوران رہا ہے، اس لیے صرف یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف کا مشن ان ساختی مسائل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو گا اور حکام کو مؤثر اور طویل عرصے سے زیر التوا اقدامات اٹھانے کی طرف متوجہ کرے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف