دو روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025، جو 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوا، ایک ایسے وژن پر اختتام پذیر ہوا جس کا مقصد پاکستان کے پوشیدہ معدنی وسائل کو کھربوں ڈالر کی معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔ اس موقع پر سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا اور تعاون کی کچھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔
اس منصوبے میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کان کنی اور معدنی سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے لئے ایک بنیادی فریم ورک پیش کیا گیا ہے۔
پی ایم آئی ایف 25 کو پاکستان کے ابھرتے ہوئے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے اور ملک کے وسیع معدنی امکانات اجاگر کرنے سے متعلق عالمی اسٹیک ہولڈرز کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر مختص کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں کان کنی کے امکانات پر روشنی ڈالی اور ایک پالیسی فریم ورک پیش کیا اور کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ سرمایہ کاروں کو جو بھی اجازت دی جائے، ہم خام مال کو پاکستان سے باہر نہیں جانے دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج سے ہمیں ایک جامع پالیسی اپنانا ہوگی جس کے تحت سرمایہ کار خام مال کی کان کنی کریں، نچلی سطح کی صنعت قائم کریں، اس خام مال کو تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل کریں اور پھر ان مصنوعات کو برآمد کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے معاہدوں میں سرمایہ کار ٹیکنالوجی لائیں گے اور اسے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان منتقل کریں گے۔
ماضی قریب میں ہونے والی کانوں اور معدنیات کی کانفرنسوں کے برعکس، جو کوئی ٹھوس نتائج نہیں دے سکیں، پی ایم آئی ایف 25 نے پاکستان کی اہم معدنیات میں امریکی حکومت کی اسٹریٹجک دلچسپی کی وجہ سے نمایاں اہمیت حاصل کر لی ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے ایک سینئر اہلکار ایرک میئر، جنہوں نے 8 سے 9 اپریل تک پاکستان کا دورہ کیا، نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان مواد کے متنوع اور قابل اعتماد ذرائع کو محفوظ کرنا ایک اسٹریٹجک ترجیح ہے۔
ایرک میئر کے دورے کا مقصد پاکستان کے اہم معدنی وسائل کے شعبے میں امریکی مفادات کو فروغ دینا، امریکی کاروباروں کے لیے مواقع پیدا کرنا، اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا اور انسدادِ دہشت گردی تعاون کی مسلسل ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔
میئر نے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کے دوران پاکستان کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کی حمایت کی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اہم معدنیات ہماری جدید ترین ٹیکنالوجیز کے لیے بنیادی خام مال ہیں۔
دیگر ممالک بھی امریکی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ ازبکستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، نے اس ہفتے اعلان کیا ہے کہ اس نے امریکی کمپنیوں کے ساتھ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں کیونکہ ان اشیاء کی عالمی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس سے قبل یوکرین نے بھی امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ اپنے وسیع معدنی وسائل پیش کر سکے۔
ریئر ارتھ منرلز، جنہیں اکثر ریئر ارتھ ایلیمینٹس (آر ای ای ایز) کہا جاتا ہے 17 کیمیائی عناصر پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ یہ گروہ 15 لینتھنائیڈز، سکینڈیم اور ایٹریئم پر مشتمل ہوتا ہے، جنہیں مجموعی طور پر ریئر ارتھ ایلیمینٹس کہا جاتا ہے۔
یہ 17 دھاتی عناصر کا ایک گروہ ہیں جو کیمیائی خصوصیات میں مماثلت رکھتے ہیں اور اکثر کانوں کے ذخائر میں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ لینتھنائیڈز پیریاڈک ٹیبل کے عناصر 57 سے 71 تک ہیں جبکہ سکینڈیم اور ایٹریئم بھی اس گروہ میں شامل ہیں۔ یہ عناصر مختلف جدید ٹیکنالوجیز کیلئے ضروری ہوتے ہیں جن میں الیکٹرانکس، قابل تجدید توانائی اور دفاعی سامان شامل ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مختلف نایاب معدنیات کے ذخائر خاص طور پر بلوچستان، قراقرم اور شمالی علاقہ جات جیسے علاقوں میں موجود ہیں۔ اس خطے کے کچھ علاقوں میں آر ای ایز کے ذخائر بھی شامل ہوسکتے ہیں حالانکہ تفصیلی تشخیص کے لئے مزید ارضیاتی سروے اور تلاش کی ضرورت ہے۔
معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان انجان پانیوں میں قدم رکھ رہا ہے جہاں اس کے پاس معاہدوں کو منظم کرنے کا کوئی تجربہ یا مہارت نہیں ہے جن کی پیچیدگی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ملک نے توانائی کے شعبے میں محسوس کی تھی جہاں معلومات اور مہارت کی کمی کی وجہ سے اسے آئی پی پیز (آزاد پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ کیے گئے معاہدوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو عوامی مفاد میں نہیں تھے۔
ریکوڈک میں معدنیات میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے تجربے سے پاکستان کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کی پیچیدگی کا سامنا ہوا۔ ریکوڈک کو دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ ذخائر میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ بیرک گولڈ کو دیا گیا تھا۔
اس منصوبے کو کئی سالوں تک لندن کی عدالت میں قانونی چارہ جوئی اور ثالثی کا سامنا کرنا پڑا جہاں پاکستان یہ مقدمہ ہار گیا اور اس پر اربوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
یہ منصوبہ سالوں تک رکا رہا اور طویل ثالثی اور بھاری اخراجات کے بعد ہی اسے دوبارہ شروع کیا گیا۔ بنیادی طور پر اس سب کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
یہ خیال کہ معدنیات کے شعبے کو سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کے بعد جلد ہی ملک کی معیشت میں کھربوں ڈالر آنا شروع ہو جائیں گے، حد سے زیادہ امید افزا ہے۔ بہت جلد ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ معدنیات میں نقد رقم کا بہاؤ شروع ہونے سے پہلے پروجیکٹ کی ترقی میں سالوں لگتے ہیں۔ ریکوڈک اس کی زندہ مثال ہے۔
پاکستان اپنی سرمایہ کاری کی تلاش میں پہلا قدم اٹھا چکا ہے، اور اس کے سامنے پیچیدہ مراحل ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کیا جا سکے:
1۔ انفراسٹرکچر کی ترقی؛
2۔ سیکیورٹی فریم ورک تاکہ آئندہ سیکیورٹی چیلنجز کو کم کیا جا سکے؛
3۔ ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورک؛
4۔ قانونی فریم ورک (وفاقی اور صوبائی سطح پر)؛
5۔ غیر ملکی پارٹنرشپ اور جوائنٹ وینچرز فریم ورک؛
6۔ ان ہاؤس ٹیکنالوجی اور مہارت کی ترقی؛
7۔ ماحولیاتی فریم ورک؛
8۔ معدنیات کے ذخائر کے مقام، مقدار اور معیار کا تعین کرنے کے لیے جیولوجیکل سروے۔
پاکستان کے معدنیات واقعی بہت طویل عرصے تک غیر دریافت اور نظر انداز رہے ہیں۔ چونکہ معدنیات صوبائی موضوعات ہیں اور ان معدنیات پر پہلا حق صوبوں کا ہے، اس لیے ان وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے کوئی یکساں پالیسی فریم ورک عمل میں نہیں لایا گیا۔ اس شعبے کا بھرپور استحصال کیا جا رہا ہے کیونکہ خام حالت میں معدنیات برآمد کی جا رہی ہیں جس سے پاکستان کو بہت کم فائدہ ہو رہا ہے۔
اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کرنا ایک درست قدم ہے، بشرطیکہ اس کے لیے مناسب قواعد و ضوابط ہوں جو پاکستان کے مفاد میں ہوں۔
The writer is a former President, Overseas Investors Chamber of Commerce and Industry
Comments