27 جون کی صبح، سوات کا دریا — جو عموماً وادیوں میں پرسکون انداز میں بہتا ہے — اچانک ایک گرجتے ہوئے طوفان میں تبدیل ہو گیا۔ وہ خاندان جو دریا کے کنارے تفریح کے لیے جمع تھے، اچانک پانی کی ایک بلند و بالا دیوار کے خلاف نبردآزما ہو گئے۔ چند ہی منٹوں میں لگ بھگ ایک درجن جانیں ضائع ہو گئیں۔ سائرن کبھی نہیں بجے، ریسکیو ہیلی کاپٹرز کبھی نہیں پہنچے، اور انتظامیہ کے اہلکار صرف اس وقت پہنچے جب دریا پیچھے ہٹ چکا تھا، پیچھے صرف برباد گھر اور ٹوٹے خواب چھوڑ گیا۔ پاکستان اب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ صرف 2022 کے سیلابوں نے تقریباً 15 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ یہ صورتِ حال اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ملک کو فوری طور پر مؤثر سیلابی تحفظ، حقیقی وقت پر خبردار کرنے والے نظام، اور سخت زمینی استعمال کے ضوابط کی ضرورت ہے تاکہ مون سون کی تباہ کاریوں کو روکا جا سکے۔

محض چند ہفتے قبل، پاکستان نے عالمی منظرنامے پر اس وقت قدم رکھا جب مئی کے مہینے میں بھارت کے ساتھ چار روزہ جھڑپ میں کامیابی حاصل کی۔ پہلگام کے فرضی حملے پر جوابی کارروائیوں سے شروع ہونے والا تنازع ہماری قومی یکجہتی کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، ہماری فضائیہ نے ایک بار پھر فضائی برتری قائم کی، مسلح افواج مضبوطی سے ڈٹی رہیں، سیاسی جماعتوں نے باہمی اختلافات وقتی طور پر ختم کر دیے، اور یہاں تک کہ واشنگٹن اور بیجنگ نے بھی تحمل کی اپیل کی۔ اس آزمائش میں، پاکستان نہ صرف کامیاب رہا بلکہ متحد بھی ہو کر ابھرا۔ ہم اس کامیابی کو اس وقت مزید آگے بڑھا سکتے تھے جب ایران-اسرائیل تنازع میں ہمیں ایک اہم علاقائی اور عالمی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

یہ تضاد — ایک طرف ماحولیاتی کمزوری اور دوسری طرف دفاعی قوت کی بحالی — قوم کے لیے ایک اور موقع لے کر آیا ہے۔ بظاہر اچانک، پاکستان نے دوبارہ عالمی سطح پر سنجیدگی سے توجہ حاصل کی ہے: بطور جنوبی ایشیا میں استحکام کا ضامن، اسلامی دنیا میں سیکیورٹی اور ترقی کا قابلِ اعتماد ساتھی، اور بطور ایسا ملک جو نہ صرف طوفانوں کا سامنا کر سکتا ہے بلکہ عالمی وقار بھی پا سکتا ہے۔ اصل چیلنج اب یہ ہے کہ اس وقتی نیک نامی کو دیرپا خوشحالی میں کیسے بدلا جائے۔

اپنے پچھلے کالم ”’دی مسڈ سنچری“ میں، میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ کوئی بھی جنوبی ایشیائی ملک تنہا خوشحال نہیں ہو سکتا۔ اس وعدے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہمیں انضمام کے ایک نئے تصور کی ضرورت ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو تنہا سڑکوں کے منصوبوں سے آگے بڑھا کر تجارت اور توانائی کے ایسے نیٹ ورک میں بدلنا ہوگا جو مغرب کی طرف افغانستان اور وسطی ایشیا تک پھیلے، اور جب وقت آئے تو مشرق کی سمت بھارت تک بھی۔ برکس پلس کے ساتھ ہماری شمولیت صرف مشاہدے تک محدود نہیں رہنی چاہیے؛ یہ زرعی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل فنانس، اور قابلِ تجدید توانائی جیسے شعبوں میں ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ڈھلنی چاہیے — ایسے منصوبے جو مشترکہ مالی تعاون سے، مشترکہ انتظام کے ساتھ اور مقامی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے، ہم ایک مضبوط معیشت بنانے میں مسلسل ناکام رہے ہیں: ہمارا راستہ بار بار طاقتور مفادات کے نیٹ ورکس اور ترجیحات کی دائمی خرابیوں کی وجہ سے بھٹکتا رہا۔ سرد جنگ اور نائن الیون کے بعد کے ادوار میں ہمیں بے شمار مالی امداد ملی، لیکن ہم اس مدد کو زرعی پیداوار یا صنعتی صلاحیت میں نمایاں بہتری میں نہ ڈھال سکے۔ اس کے برعکس، کھپت میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ معیشت کے بنیادی ڈھانچے جمود کا شکار رہے۔ آج ہماری معیشت گردشی قرضوں، وقتی بیل آؤٹس، اور پالیسی جمود کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس زوال کے مرکز میں ایک کرایہ خور (رینٹ سیکنگ) سیاسی معیشت ہے، جہاں مخصوص مفادات نے اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے، ریگولیٹری نگرانی کو کمزور کیا ہے، اور ریاست کی بنیادی خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا ہے۔

مارچ 2025 تک پاکستان کا سرکاری قرضہ 74 کھرب روپے (جو کہ جی ڈی پی کا 68 فیصد ہے) تک پہنچ چکا ہے، اور قرضوں کی ادائیگی کی لاگت ترقیاتی اخراجات کو ختم کر رہی ہے اور ہر بجٹ فیصلے کو محدود کر رہی ہے۔ قومی بچت کی شرح صرف 13 فیصد ہے (2023)، جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے (بنگلہ دیش میں 35 فیصد، بھارت میں 31 فیصد، سری لنکا میں 27 فیصد کے مقابلے میں)۔ برآمدات اب بھی تقریباً 30 ارب ڈالر پر جمی ہوئی ہیں، جبکہ بڑھتی ہوئی درآمدات تجارتی خسارے کو وسیع کر رہی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر کو کھا رہی ہیں۔ اگر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات نہ ہوتیں، تو ملک کی معیشت شاید تین ماہ بھی نہ سنبھل پاتی۔ اسی دوران، پی آئی اے پاکستان ریلوے، اور ڈسکوز جیسے سرکاری ادارے قومی خزانے کو مجموعی طور پر 5.8 کھرب روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ عدم مساوات شدید ہے: سب سے امیر 10 فیصد گھرانے 60 فیصد قومی دولت اور 43 فیصد قومی آمدنی پر قابض ہیں، جبکہ آدھی آبادی کے پاس نہ زمین ہے اور نہ ہی 5 فیصد سے زیادہ اثاثے۔

اس زوال کو پلٹنے کے لیے بصیرت اور نظم و ضبط درکار ہے۔ کفایت شعاری کے ذریعے اصلاحات کے فریب کو چھوڑ کر حقیقی مالی اور طرزِ حکمرانی کی تنظیمِ نو کرنا ہوگی۔ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا تاکہ ترقیاتی اہداف پر مبنی اور منصفانہ وسائل کی تقسیم ممکن ہو۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے؛ وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی کو محدود کیا جائے؛ اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو یا تو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے یا ان کی تشکیلِ نو کی جائے۔ توانائی کے شعبے میں پانی، شمسی، اور جوہری ذرائع کی طرف حکمت عملی سے منتقلی، اور ترسیلی نقصانات (جو مالی سال 2024 میں 18 فیصد تھے) کو کم کرنے کی کوشش، نہ صرف سرکاری مالیات پر دباؤ کم کرے گی بلکہ بجلی کی فراہمی میں استحکام بھی لائے گی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ معیشت کی ایک جامع اسلامی تشکیل کی جائے — یہ کسی نمائشی اقدام کے طور پر نہیں، بلکہ سماجی برابری اور ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر ہو۔ زکٰوۃ اور عشر جیسے اسلامی مالیاتی ذرائع غیر رسمی معیشت کو رسمی بنانے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے، اور فلاحی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر اس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو سالانہ بنیاد پر صرف عشر کے نفاذ سے تقریباً 2 کھرب روپے کا اضافی وفاقی ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی، انفراسٹرکچر کی مالی معاونت کے لیے بتدریج سکوک جیسے شریعت سے ہم آہنگ مالیاتی آلات پر انحصار بڑھانا ہوگا، تاکہ سود پر مبنی قرضے پر انحصار کم ہو اور شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کے ذرائع کو کھولا جا سکے۔

کم از کم پاکستان کے 50 فیصد قرضوں کی تشکیلِ نو سکوک کی بنیاد پر ہونی چاہیے، تاکہ پائیدار ترقی کی راہ ہموار ہو جو اخلاقی مالیات پر مبنی ہو۔ درست حکمتِ عملی کے ساتھ پاکستان خود کو شریعت سے ہم آہنگ گرین فنانس کا علاقائی مرکز اور ایک جدید، جامع اور پائیدار اسلامی ترقیاتی ماڈل کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

ان اقدامات کو ایف بی آر، سرمایہ کاری بورڈ، اور پلاننگ کمیشن کی ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے تقویت دینا لازم ہے تاکہ مالی استعداد میں اضافہ ہو اور ناکارکردگی کم کی جا سکے۔

مئی 2025 میں سفارتی کامیابیوں کے بعد، پاکستان کو اگلے پانچ برس کے لیے قرضوں کی مہلت (رول اوور) کے لیے مذاکرات کرنے چاہئیں — یہ صرف قلیل مدتی لیکویڈیٹی ریلیف کے لیے نہیں، بلکہ تعلیم، صحت اور سیلاب سے تحفظ جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے مالی گنجائش پیدا کرنے کا ایک موقع ہونا چاہیے۔ تاہم یہ موقع بھی جلد ختم ہو جائے گا اگر ہمارے ادارے بدعنوانی اور ناقص انتظامیہ کے باعث مفلوج رہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے 2024 کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان نے محض 27/100 اسکور کیا، اور 180 ممالک میں سے 135ویں نمبر پر رہا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اب بھی بیوروکریسی کی گٹھن زدہ سرخ فیتے کا شکار ہیں، جبکہ جولائی تا اپریل مالی سال 25-2024 کے دوران براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) صرف 1.78 ارب امریکی ڈالر رہی — جو پائیدار ترقی کے لیے درکار سطح سے کہیں کم ہے۔

سنجیدہ سرمایہ کو متوجہ کرنے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی معیار کی، ڈالر میں قابلِ سرمایہ کاری مفصل فزیبلٹی رپورٹس تیار کرنا ہوں گی — خاص طور پر توانائی، معدنیات، سیاحت، لاجسٹکس، اور زرعی کاروبار کے شعبوں میں۔ اس کوشش کو مؤثر منظوری کے نظام، وزارتوں کے درمیان شفاف رابطہ کاری، اور وفاقی و صوبائی سطح پر مستقل ہم آہنگی سے تقویت ملنی چاہیے۔ سرمایہ کاری کے لیے ایک متحد، مثبت اور حوصلہ افزا قومی رویہ اب محض انتخاب نہیں، بلکہ معیشت کی بحالی اور طویل مدتی پائیداری کی شرط بن چکا ہے۔

اور جب ہم مستقبل کی طرف دیکھیں، تو ہمیں اپنے اندر بھی جھانکنا ہوگا۔ ہم دوبارہ مفلوج جمہوری ادوار یا ایوب کے استحقاق، یحییٰ کی بے تدبیری، ضیاء کی وسوسہ زدگی، یا مشرف کے وقتی فیصلوں کی روش نہیں اپنا سکتے۔ ہر دور نے اپنی مخصوص کوتاہیوں کے ذریعے ہمارا مستقبل گروی رکھا: کبھی غیر ملکی سرمایہ پر، کبھی داخلی جبر پر، اور اکثر غلط اندازوں پر مبنی جنگوں یا عارضی عالمی حمایت پر۔ ہم ایک اور ضائع ہونے والی دہائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اصلاحات شخصیات کے گرد نہیں، اداروں کے گرد ہونی چاہئیں؛ موقع پرستی پر نہیں بلکہ حکمتِ عملی پر مبنی ہوں؛ اور مخصوص طبقات تک محدود نہیں بلکہ ہمہ گیر ہوں۔

جیسا کہ لی کوان یو نے اپنے آخری نیشنل ڈے ریلی میں کہا تھا کہ ہم نے ایک ہی زندگی جینی ہے۔ اگر مرنا ہے، تو کسی مقصد کے لیے مریں گے۔ آج وہ مقصد ایک ایسا پاکستان ہے جو اس سنہری موقع کو مکمل طور پر حاصل کرے: آزمائشوں کو کامیابیوں میں بدلے، خود کو دوبارہ تعمیر کرے، اور جو غیر متوقع طور پر ہمیں جنوبی ایشیا، اسلامی دنیا، اور عالمی سطح پر ملی ہوئی اہمیت کو مؤثر انداز میں استعمال کرے۔ مگر اس لمحے کو دیرپا تبدیلی میں ڈھالنے کے لیے ہمیں لی کوان یو کی ایک اور نصیحت یاد رکھنی ہوگی “ہمیں اپنے سب سے قابل اور بہترین لوگوں کو سیاست میں لانا ہوگا۔“اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بے حسی، مایوسی، اور اوسط پن کو خیرباد کہیں۔ پاکستان کی بحالی کے لیے اہلیت، میرٹ اور قیادت کی ہمت درکار ہے۔

تاریخ ہمیں ان طوفانوں سے نہیں جانچے گی جنہیں ہم نے جھیلا، اور نہ ان جھڑپوں سے جن سے ہم بچ نکلے — بلکہ ہماری اس قوتِ ارادی سے ہمیں جانچے گی جو ہم نے ان کا سامنا کرتے ہوئے دکھائی۔ بہت کم اقوام ایسی ہوتی ہیں جو تباہی کے دہانے سے واپس آ کر عالمی اہمیت حاصل کر سکیں؛ اور ان میں سے بھی کم وہ ہوتی ہیں جو اس لمحے کو پہچانیں اور اس پر پورا اُتریں۔ پاکستان کو اب بقا نہیں، بلکہ مقصد کا انتخاب کرنا ہے۔ اور شاید — یہ ہمارا آخری — موقع ہو۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Jawad Majid Khan

The writer is President & CEO, Bank Makramah Limited. Email: [email protected]

Comments

200 حروف