بنگلہ دیش میں سول سروس ملازمتوں کے کوٹے کیخلاف احتجاج میں ہلاکت خیز جھڑپوں پر قابو پانے کیلئے حکام کی جانب سے نرمی کرنے کے بعد بینک اور گارمنٹس فیکٹریاں بدھ کو دوبارہ کھل گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس اور اسپتالوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے پرتشدد واقعات میں کم از کم 186 افراد ہلاک ہوئے۔ حالیہ پرتشدد واقعات شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں بدامنی کے بدترین واقعات ہیں۔

بنگلہ دیش میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں فوجی گشت کر رہے ہیں اور ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے تقریبا ایک ہفتہ بعد بھی زیادہ تر بنگلہ دیشی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔

لیکن کئی دنوں کی بے لگام تباہی کے بعد حالت کنٹرول میں آنے پر معاشی حوالے سے اہم ملک کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں نے حکومت کی منظوری کے بعد دوبارہ کام شروع کر دیاہے۔

فیکٹری میں کام کرنے والی 40 سالہ ”خاتون“ نامی شہری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم اپنی کمپنی کے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ اس تعطل کے باوجود وہ احتجاجی طلبہ کی جانب سے حکومت کی بھرتیوں کے قوانین میں اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کرتی ہیں اور گزشتہ ہفتے ہونے والے تشدد سے حیران ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ان کے تمام مطالبات پر عمل درآمد کرنا چاہئے، ان میں سے بہت سے مارے گئے، انہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے قربانی دی۔

ملبوسات کی صنعت بنگلہ دیش کے لئے سالانہ 50 بلین ڈالر کی برآمدی آمدنی پیدا کرتی ہے جس میں لاکھوں نوجوان خواتین کو ایچ اینڈ ایم ، زارا ، گیپ اور دیگر معروف بین الاقوامی برانڈز کے لئے ملبوسات تیار کرنے پر روزگار ملتا ہے۔

بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ گارمنٹس فیکٹریوں نے ”ملک بھر میں“ کاروبار دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

حسینہ واجد کے ترجمان نے بتایا کہ حسینہ واجد کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے ٹیکسٹائل ورکرز کو کرفیو سے استثنیٰ دینے پر اتفاق کیا ہے تاکہ وہ کام پر واپس آسکیں۔

بدھ کے روز کرفیو میں نرمی کی گئی تھی تاکہ تجارتی شعبوں کو کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جا سکے تاہم کرفیو بیشتر شہریوں کیلئے 19 گھنٹے کے لئے نافذ العمل رہتا ہے۔

حکومتی ترجمان شبلی صادق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دارالحکومت ڈھاکہ میں بینک، اسٹاک ایکسچینج اور کچھ سرکاری دفاتر بھی صبح 10 بجے سے سہ پہر 3 بجے کے درمیان کھل گئے۔

’بڑے پیمانوں پر جانوں کا ضیاع‘

اس ماہ ہونے والے مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ گروپ نے کم از کم جمعے تک مظاہروں کو معطل کر دیا ہے اور ایک رہنما کا کہنا ہے کہ وہ ’اتنی جانوں کی قیمت پر‘ اصلاحات نہیں چاہتے۔

پولیس نے گزشتہ ہفتے تشدد شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 2500 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ حالات بہتر ہونے پر گھروں میں رہنے کے حکم میں مزید نرمی کی جائے گی۔

منگل کی شام سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ آہستہ آہستہ بحال کیا جا رہا تھا لیکن احتجاج کے منتظمین کے لئے مواصلات کا ایک اہم طریقہ موبائل انٹرنیٹ غیر فعال رہا۔

امریکی مانیٹر نیٹ بلاکس کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش بھر میں انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی اب بھی معمول سے 80 فیصد کم ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کی وجہ سے جون میں کوٹہ اسکیم کو دوبارہ متعارف کرانے کے سبب ملازمتوں کے شدید بحران کا سامنا کرنے والے گریجویٹس شدید پریشان ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ کوٹہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے وفاداروں کیلئے سرکاری ملازمتوں کا ڈھیر لگاکر استعمال کیا جاتا ہے۔

76 سالہ حسینہ واجد 2009 سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہیں اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ان کی حکومت پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہیں جس میں حزب اختلاف کے کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے۔

Comments

200 حروف