خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں کئی روز سے جاری تشدد کی لہر کے دوران گرفتاریوں کی تعداد 2500 سے تجاوز کر گئی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق پولیس اور اسپتالوں کی جانب سے متاثرین کی ایک علیحدہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے پرتشدد مظاہروں میں کم از کم 174 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ہفتے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف مظاہروں کا آغاز وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت کی بدترین بدامنی کی صورت میں ہوا۔

مظاہرین کو روکنے کیلئے ملک میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش نے معلومات کے بہاؤ کو بہت حد تک محدود کردیا ، جس سے بہت سے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہوئی۔

مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ گروپ نے پیر کے روز اپنے احتجاج کو 48 گھنٹوں کے لیے معطل کر دیا تھا اور اس کے رہنما نے کہا تھا کہ وہ ’اتنی جانوں کی قیمت پر“اصلاحات نہیں چاہتے تھے۔

یہ پابندیاں منگل کو اس وقت تک برقرار رہیں جب آرمی چیف نے کہا کہ صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے۔

وزیر مواصلات نے کہا کہ براڈ بینڈ انٹرنیٹ منگل کی شام کو بحال کر دیا جائے گا حالانکہ انہوں نے موبائل انٹرنیٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا جو احتجاج کے منتظمین کے لئے مواصلات کا ایک اہم طریقہ ہے۔

ڈھاکہ میں فوج کی بھاری نفری موجود تھی اور کچھ چوراہوں پر بنکرز بنائے گئے تھے اور اہم سڑکوں کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا تھا۔

سینکڑوں رکشوں کی طرح بہت زیادہ تعداد میں لوگ سڑکوں پر تھے۔

رکشہ ڈرائیور حنیف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کرفیو کے ابتدائی چند دنوں میں میں رکشہ نہیں چلاتا تھا لیکن آج میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو میری فیملی بھوکی رہے گی۔

مظاہروں کا انتظام کرنے والے مرکزی گروپ اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسپریشن کے سربراہ نے پیر کے روز اپنے اسپتال کے کمرے میں اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں اغوا اور مار پیٹ کے بعد اپنی جان کا خطرہ ہے۔

گروپ نے منگل کے روز کہا کہ اس کے کم از کم چار رہنما لاپتہ ہیں اور حکام سے شام تک انہیں واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سڈنی سے تعلق رکھنے والے بنگلہ دیشی سیاست کے ماہر مبشر حسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کریک ڈاؤن سے عالمی سطح پر حکومت کے تشخص کو مزید نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسے ایک ایسی حکومت کے طور پر دیکھا جائے گا جو نہ صرف سیاست کو جرم قرار دیتی ہے بلکہ وہ مظاہرین اور اپنے شہریوں کو گولی مارنے کے لیے اپنی سیکورٹی فورسز کا بھی استعمال کرتی ہے۔

قتل و غارت کا بازار

مظاہروں پر حکام کے ردعمل کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسپتال زخمیوں اور ہلاک شدگان کی تعداد ظاہر نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا نوجوانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔

اپنے مائیکرو فنانس بینک کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے ذریعہ 83 سالہ ماہر معاشیات کو سمجھا جاتا ہے تاہم حسینہ واجد نے ان پر غریبوں کا خون چوسنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے کریک ڈاؤن کے دوران اقوام متحدہ کے نشانات والی گاڑیوں کے استعمال کی ’پریشان کن رپورٹس‘ پر بنگلہ دیشی حکام سے ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں اہم شراکت دار ہے اور اس کے فوجی سازوسامان میں اس طرح کے سازوسامان موجود ہیں۔

ڈھاکہ میں سفارت کاروں نے بھی حکومت کے اقدامات پر سوالات اٹھائے اور امریکی سفیر پیٹر ہاس نے وزیر خارجہ کو بتایا کہ انہوں نے ایک بریفنگ کے دوران یک طرفہ ویڈیو دکھائی ہے۔

سرکاری حکام نے بار بار مظاہرین اور حزب اختلاف کو بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے پولیس حکام کے مطابق تشدد کے دوران حراست میں لیے گئے 1200 سے زائد افراد کو ڈھاکہ اور اس کے دیہی اور صنعتی علاقوں سے حراست میں لیا گیا۔

چٹاگانگ اور اس کے دیہی علاقوں میں تقریبا 600 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ ملک بھر کے اضلاع میں سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا۔

اقتدار پر مضبوط گرفت

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کی وجہ سے جون میں کوٹہ اسکیم کو دوبارہ متعارف کرانے سبب ملازمتوں کے شدید بحران کا سامنا کرنے والے گریجویٹس انتہائی پریشان ہیں۔

مظاہروں میں اضافے کے پیش نظر سپریم کورٹ نے اتوار کے روز تمام عہدوں پر مخصوص ملازمتوں کی تعداد 56 فیصد سے گھٹا کر سات فیصد کر دی جن میں سے زیادہ تر 1971 کی جنگ کے “ فریڈم فائٹرز“ کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے ہیں۔

یہ فیصلہ مظاہرین کی جانب سے ’فریڈم فائٹرز‘ کے زمرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مطالبے سے کم تھا۔

حسینہ واجد کے ترجمان نے پیر کی رات اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرنے کے حکومتی حکم نامے کی منظوری دے دی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ کوٹہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے وفاداروں کیلئے سرکاری ملازمتوں کا ڈھیر لگاکر استعمال کیا جاتا ہے۔

76 سالہ حسینہ واجد 2009 سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہیں اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ان کی حکومت پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہیں جس میں حزب اختلاف کے کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے۔

Comments

200 حروف