امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز واضح کیا کہ چین پر عائد کیے جانے والے ٹیرف سے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کو دی گئی عارضی چھوٹ زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سیمی کنڈکٹر سیکٹر پر قومی سلامتی کے حوالے سے تجارتی تحقیقات کا آغاز کیا جائے گا۔
انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں واضح کیا کہ کمپیوٹرز اور اسمارٹ فونز پر عارضی چھوٹ دراصل انہیں ایک الگ ”ٹیرف بکٹ“ میں منتقل کرنے کا عمل ہے، نہ کہ مستقل استثنا۔
اس سے قبل، وائٹ ہاؤس نے جمعہ کے روز چین سے درآمد شدہ کچھ ٹیکنالوجی مصنوعات پر بھاری ٹیرف سے استثنا کا اعلان کیا تھا، جسے ایپل اور ڈیل جیسی کمپنیوں کے لیے بڑی ریلیف سمجھا جا رہا تھا۔ تاہم، اتوار کو ٹرمپ کے کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹ نک نے تصدیق کی کہ یہ استثنا وقتی ہے، اور آئندہ دو ماہ میں ان مصنوعات پر بھی الگ ٹیرف لاگو کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے ٹیرف اعلانات نے گزشتہ ہفتے وال اسٹریٹ کو سخت اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیا۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز 500 انڈیکس صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک 10 فیصد سے زائد نیچے آ چکا ہے۔
لٹ نک کے مطابق، اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، سیمی کنڈکٹرز اور دواسازی کی مصنوعات پر ”خصوصی نوعیت کا ٹیرف“ لاگو کیا جائے گا، جو کہ ٹرمپ کے ”ریسِپروکل ٹیرف“ کے دائرہ کار سے باہر ہوگا۔ چین کی جانب سے بھی جمعہ کو امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف بڑھا کر 125 فیصد کر دیا گیا تھا۔
چین کی وزارت تجارت نے ردعمل دیتے ہوئے کہا، ”شیر کی گردن میں بندھی گھنٹی وہی کھول سکتا ہے جس نے اسے باندھا ہو۔“ یعنی بحران کا حل انہی کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے اسے پیدا کیا۔
بلینئر سرمایہ کار بل ایک مین، جو ٹرمپ کی صدارتی مہم کے حامی رہے ہیں، نے صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ چینی مصنوعات پر ٹیرف عارضی طور پر 90 دن کے لیے معطل کریں اور شرح کو 10 فیصد تک کم کریں تاکہ امریکی کاروبار بغیر کسی بڑے معاشی دھچکے کے چین سے اپنی سپلائی چین منتقل کر سکیں۔
معاشی ماہرین اور امریکی سینیٹر الزبتھ وارن نے بھی ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پر کڑی تنقید کی، اور اسے ”افراتفری اور کرپشن“ قرار دیا۔
ادھر، امریکی محکمہ کسٹمز نے ٹیرف استثنا کے لیے 20 مصنوعات کی فہرست جاری کی ہے جن میں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ڈِسک ڈرائیو، سیمی کنڈکٹر ڈیوائسز اور میموری چپس شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو نے کہا کہ چین کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے، تاہم انہوں نے چین کے فینٹانائل سپلائی سے مبینہ تعلقات پر تنقید کی اور اسے ان سات ممالک کی فہرست سے باہر رکھا جن سے امریکا بات چیت کر رہا ہے، جن میں برطانیہ، یورپی یونین، بھارت، جاپان، کوریا، انڈونیشیا اور اسرائیل شامل ہیں۔
امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان بات چیت کا کوئی منصوبہ نہیں، لیکن امریکا دیگر کئی ممالک سے جلد معاہدے حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے۔
بلینئر سرمایہ کار رے ڈیلیو نے خبردار کیا کہ اگر یہ معاملہ درست طریقے سے نہ سنبھالا گیا تو امریکا کساد بازاری یا اس سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
Comments