سینیٹر اور قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن شیری رحمان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ 10 سال کے دوران ٹرانسپورٹ سے پیدا ہونے والی آلودگی دگنی ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز پر قابو پانے کے لئے الیکٹرک وہیکل (ای وی) کے خریداروں اور صارفین کی حوصلہ افزائی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ 10 سال میں استعمال ہونے والی موٹر گاڑیوں کی تعداد دگنی ہونے جا رہی ہے، (اور) جیسے جیسے وہ دگنی ہو جائیں گی، آپ سانس نہیں لے سکتے… گاڑیوں کا اخراج فضائی آلودگی کے مرکب کا 48 فیصد ہے اور پاکستان میں صنعت اور زراعت کا فضلہ جلانے سے بھی اس میں اضافہ ہوا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کلائمیٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) کے زیر اہتمام ’پاکستان الیکٹرک وہیکل- ایک پائیدار مستقبل کی جانب منتقلی کو تیز کرنا‘ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ فضائی آلودگی کا ایک اہم حصہ مقامی سطح پر پیدا ہوتا ہے لہذا قوم اکیلے ہی ہوا کے معیار کے چیلنج پر قابو پا سکتی ہے۔ ہم اس صورتحال میں بے بس نہیں ہیں اور ہمیں تبدیلی لانے کے لئے کثیر الجہتی کانفرنسوں کے وسیع نیٹ ورک کی ضرورت نہیں ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی سابق وزیرشیری رحمان نے کہا کہ دوبارہ سانس لینے کے لئے ہمیں پوری دنیا کو اپنے ساتھ لے کر جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں خود کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان الیکٹرک وہیکل انقلاب کے ذریعے موسمیاتی چیلنجز پر جزوی طور پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کو گاڑیوں کے صارفین کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، خاص طور پر 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیوں پر جو ملک میں گاڑیوں کی مجموعی تعداد کا 84 فیصد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں درآمدی ٹیکسوں اور ٹیرف میں مراعات دینا ہوں گی، خاص طور پر 2 اور 3 پہیوں والی گاڑیوں پر کیونکہ اس ضمن میں صرف سماجی اور اخلاقی بنیادوں پر تحریک پیدا نہیں کی جاسکتی اورنہ ہی یہ تیز کی جا سکتی ہے۔
الیکٹرک وہیکلز (بجلی سے چلنے والی گاڑیوں) کے صارفین کی حوصلہ افزائی اس طرح کی جانی چاہئے جس سے موجودہ دیگر صارفین کو ایسا محسوس نہیں ہو کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مراعات کے بغیر صنعت چلائی جا سکتی ہے نہ ہی گاہکوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں اور دھوئیں کے اخراج پر قابو پانے اور اسے قبل از صنعتی درجہ حرارت کی سطح تک نیچے لانے کے لئے سماجی تبدیلی لانے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔
بدقسمتی سے پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔ لاہور، ملتان اور کراچی سمیت اس کے کچھ بڑے شہر اکثر دنیا بھر کے 10 آلودہ شہروں اور قصبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بدتر صورتحال میں اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے 500 الیکٹرک بسوں کا پہلا بیڑا جلد ہی کراچی پہنچنے والا ہے۔
انہوں نے موجودہ گاڑیوں کے مالکان پر زور دیا کہ وہ فضائی آلودگی اور آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کو کم کرنے کے لئے اپنی گاڑیوں کی فٹنس کو موثر اور باقاعدگی سے برقرار رکھیں کیونکہ فوسل ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں فوری طور پر سڑکوں سے غائب نہیں ہونے والی ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم یورپ کے بہت سے چھوٹے ممالک کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں پر قابو پانے میں بہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔
Comments