نئی دہلی کی جانب کسانوں کا احتجاجی مارچ، پولیس کی شیلنگ
بھارتی پولیس نے جمعے کے روز احتجاجی مارچ کیلئے نئی دہلی کی جانب بڑھنے والے کسان مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔ مظاہرین اپنی فصلوں کی کم از کم قیمتوں کی ضمانت کے لئے اپنے دیرینہ مطالبے کے حق میں احتجاج کر رہے تھے۔
کسانوں نے رواں ہفتے ”مارچ ٹو دہلی“ مہم دوبارہ شروع کی ہے جس کا مقصد 2021 میں ٹریکٹروں پر سوار مظاہرین کے دہلی پہنچ کر ڈرامائی احتجاج کی یاد تازہ کرنا ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر (125 میل) شمال میں واقع شنبھو کے مقام پر پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کنکریٹ کے بلاک اور خار دار تاروں سے بھاری رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔
حکام نے جلوس کے راستے پر موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی ہیں تاکہ مظاہرین کے درمیان باہمی رابطے کو روکا جا سکے۔
نیلے اور پیلے جھنڈے لہراتے ہوئے مظاہرین نے ناکہ بندی کا ایک حصہ توڑ دیا جس کے بعد پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
کسان رہنما سرون سنگھ پاندھر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ فروری میں حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات کے چار دور ہوئے تھے تاہم اس کے بعد سے ہمارے مطالبات پر مزید بات نہیں ہوئی ہے۔
سرون سنگھ پاندھر کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں احتجاج کا جمہوری حق دے۔
احتجاج کرنے والے کسان اپنی فصل کی قیمت کی ضمانت کے علاوہ قرضوں کی معافی اور کئی سال پہلے حکومت کی جانب سے لی گئی اراضی کے معاوضے میں اضافے سمیت دیگر رعایتوں کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
بھارت میں کسان اپنی بڑی تعداد کی وجہ سے سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں جبکہ ازسر نو شروع کیا گیا احتجاج ایسے وقت ہو رہا ہے جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی میں سے دو تہائی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریبا پانچواں حصہ ہے۔
زرعی اصلاحات بلوں کے خلاف نومبر 2020 میں احتجاج ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا جو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے اس شعبے میں اصلاحات کی کوششوں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔
ایک سال بعد کسانوں کی احتجاجی مہم نے نریندر مودی کو تین متنازع قوانین منسوخ کرنے پر مجبور کیا تھا جن کے بارے میں کسانوں کا دعویٰ تھا کہ ان سے نجی کمپنیوں کو ملک کے زرعی شعبے کو کنٹرول کرنے کا موقع ملے گا۔
Comments