لاہور میں فضائی آلودگی رواں ماہ کے وسط میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سب سے بلند سطح پر جا پہنچی۔ اس کی وجہ درج ذیل ہے:

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور پر نومبر کے بیشتر حصے میں خطرناک اسموگ کی ایک دبیز تہہ چھائی رہی جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشیوں کیلئے صحت کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔

آلودگی 14 نومبر کو عروج پر پہنچی۔ سوئس ایئر کوالٹی مانیٹرنگ آرگنائزیشن آئی کیو ایئر کے ڈیٹا کے مطابق شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) غیر معمولی طور پر بلند اور خطرناک حد تک 1,110 کی سطح تک پہنچ گیا اور مائیکرو پارٹیکولیٹ میٹر، یا پی ایم 2.5 ہوا کے فی مکعب میٹر میں 632 مائیکروگرام تک پہنچ چکا ہے۔

 ۔
۔

پنجاب میں، جہاں لاہور واقع ہے، حکام نے اس مہینے کے دوران ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا، اسکولوں کو بند کردیا اور یونیورسٹی کی لائسز آن لائن کردیں۔ انہوں نے آلودگی کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش میں تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔

لاہور میں سالانہ آلودگی نہ صرف معمول سے پہلے شروع ہوئی بلکہ یہ زیادہ شدید بھی تھی۔ پی ایم 2.5 کی مقدار اکثر خطرناک حد سے تجاوز کر گئی جو گزشتہ پانچ سال میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ سطح ہے۔

سرحد کے اس پار بھارت میں دہلی کو مضر صحت ہواؤں کے ساتھ ساتھ اس طرح کی گھمبیر صورتحال کا سامنا رہا کیونکہ ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے آلودگی کی سطح میں اضافہ ہوا۔

سیٹلائٹ تصاویر سے شمالی بھارت اور پاکستان کے طول و عرض میں اسموگ کی دبیز تہہ واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ 14 نومبر اور 18 نومبر کے تقابلی مناظر اسموگ کی تہہ میں ڈرامائی اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

جہاں لاہور نے 14 نومبر کو آلودگی کا زیادہ بوجھ برداشت کیا تو وہیں دہلی کی ہوا کا معیار 18 نومبر تک مزید بگڑ گیا، جزوی طور پر ہوا کے رخ میں تبدیلی نے آلودگی کو سرحدوں کے پار اور پورے خطے میں پھیلا دیا۔

شمالی بھارت اور پاکستان کو لپیٹ میں لیتی اسموگ کی تہہ

14 اور 18 نومبر کی سیٹلائٹ تصاویر اسموگ کے پھیلاؤ میں شدت کو ظاہر کرتی ہیں جو ہوا کے بدلتے ہوئے رخ کے باعث بڑھ رہی تھی۔

 ۔
۔

 ۔
۔

لاہور اور دہلی دونوں اکثر پی ایم 2.5 کی بلند سطح سے دوچار رہتے ہیں۔ اگرچہ دہلی تاریخی طور پر اپنی خراب ہوا کے معیار کے لئے جانا جاتا ہے تاہم لاہور نے 2024 میں متعدد مواقع پر دہلی کو پیچھے چھوڑ دیا اور پی ایم 2.5 کی سطح خطرناک حد تک بلند ریکارڈ کی گئی ہے۔

 ۔
۔

محکمہ ماحولیات پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال سموگ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بدترین ہے۔ اس کی بڑی وجہ ستمبر اور اکتوبر کے دوران بارش کا نہ ہونا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے دوران بارش کی بدولت ہوا سے مضر صحت ذرات ختم ہوگئے تھے اور رواں برس بھی ہمیں اس کا انتظار ہے۔

 ۔
۔

لاہور میں رہنے والے لوگوں کو صحت کی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اے کیو آئی مسلسل ”خطرناک“ زمرے میں رہا۔ اسکول اور کالج بند کر دیے گئے اور بہت سے کاروباری اداروں نے آلودہ ہوا کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کام کم کر دیا۔

اسپتالوں نے سانس کی بیماریوں میں اضافے کی اطلاع دی، جناح ہسپتال لاہور کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وحید عمران نے کہا کہ خاص طور پر بچے اور بزرگ افراد اس بیماری کا شکار ہوئے:

انہوں نے کہا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے اسموگ سے متاثر ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں، ان میں متعلقہ بیماریوں اور اسپتال میں داخل ہونے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

 ۔
۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ کی وجہ صنعتی اخراج، گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں، فصلوں کی باقیات جلانا اور تعمیراتی دھول شامل ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اس دائمی مسئلے کو حل کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے جو آشوب چشم، معاشی نقصانات اور طویل مدتی صحت کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ حکام نے نومبر میں شہریوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فیس ماسک پہنیں اور اسموگ کے خطرات کم کرنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

رواں برس اسموگ میں اضافے کا بنیادی سبب فصلوں کی باقیات جلانا ہے، بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی کسانوں نے نئی فصل کی تیاریوں کے سلسلے میں پرانی فصل کی باقیات جلادیں، ناسازگار موسمی حالات کے ساتھ مل کر اس عمل نے پورے خطے میں آلودگی پھیلائی۔ حکام نے ان علاقوں میں آگ لگنے کے ہزاروں واقعات کی اطلاع دی ہے جس سے پہلے سے ہی خطرناک آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

 ۔
۔

صوبائی محکمہ مذہبی امور کی جانب سے اسموگ پر قابو پانے کی کوششوں کی کال کے بعد صوبہ پنجاب کی 600 سے زائد سرکاری مساجد میں نمازیوں نے جمع ہو کر بارش کے لیے رضاکارانہ طور پر نماز استسقا ادا کی۔

ہر موسم سرما میں جنوبی ایشیا شدید آلودگی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے کیونکہ ٹھنڈی ہوا زرعی باقیات کو جلائے جانے کے نتیجے میں نکلنے والے دھویں، دھول اور گاڑیوں کے دھوئیں کو جذب کرلیتی ہے، یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) رپورٹ کے مطابق یہ آلودگی خطے میں موجود شہریوں کی طبعی عمر میں 5 برس کی کمی کرسکتی ہے۔

Comments

200 حروف