جائیٹکس گلوبل 2024 میں ’اسمارٹ سٹیز‘ کے کردار اور ارتقا ء پر تبادلہ خیال کیا گیا کیونکہ دبئی مختلف صنعتوں میں ٹیکنالوجیز کو شامل کرنے کی راہ پر گامزن ہے جو عالمی طریقہ کار کے عین مطابق ہے۔

بدھ کے روز بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس بات پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے جمع ہوئیں کہ شہروں کو مستقبل کے لئے تیار اور موثر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کو کس طرح شامل کیا جائے۔

گلوبل ٹیک کانفرنس کے 44 ویں ایڈیشن میں متعدد حکمت عملیوں اور اقدامات کی نمائش کی گئی جس پر دبئی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی مستقبل کی معیشتوں میں پہلے سے ہی غور اور عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

دبئی پولیس نے ٹیسلا سائبر ٹرکس کے ساتھ اپنی خدمات کا آغاز کیا، ڈیجیٹل بینک روایتی بینکوں کے مقابلے میں منافع اور مارکیٹ شیئر میں آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ انسانی اوصاف کے حامل روبوٹک ٹیچرز اور روبوٹ بینڈز بھی ترقی کر رہے ہیں۔

دبئی گرین بلڈنگ کی بھی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، ڈویلپرز اور ایکو پروجیکٹس کی اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری اور خریداروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

جائیٹکس نے یہ بھی واضح کیا کہ شہروں کو کس طرح اے آئی کو اپنانے اور استعمال کرنے کے کئی طریقے ہیں تاکہ رہائشیوں اور حکومت کے لئے انہیں مزید موثر بنایا جا سکے۔

مقررین نے بارسلونا کی مثال دی – جو فضلہ ٹھکانے لگانے میں اے آئی کے استعمال میں ایک رہنما ہے اور سینسرز سے لیس کوڑے دانوں کے اپنائے جانے کا ذکر کیا جو بلدیہ اور کارکنان کے لئے فضلہ جمع کرنے کے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں۔

ایمسٹرڈیم میں ایج بلڈنگ کو دنیا کا ’اسمارٹ ترین‘ شہر سمجھا جاتا ہے۔

اس میں 28,000 سینسرز موجود ہیں، جو ایک نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہیں جو نہ صرف عمارت اور لوگوں کی لاجسٹکس کا انتظا کرتا ہے بلکہ کمیونٹی کے رویے پر ڈیٹا جمع اور اس کا تجزیہ بھی کرتا ہے۔

جائیٹکس میں ان باتوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے کس طرح اے آئی کو شہروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جیسے اسمارٹ گرڈز، اسمارٹ کولنگ، اور یہاں تک کہ ہوا کی آلودگی کی پیمائش – خاص طور پر ایسے شہروں کیلئے جو دھند اور ٹریفک کا شکار ہیں، جیسے کہ کراچی اور لاہور میں یہ مسائل عام ہیں۔

اس نے اس شعبے میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

اے آئی کو شدید موسمی حالات کے دوران خاص طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے تاکہ شہروں میں قدرتی آفات کیخلاف یا اس سے نمٹنے کی تیاریوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔ یہاں ایک بار پھر کراچی جیسے شہروں کا ذکر کیا جاسکتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی، شدید بارش اور سیلاب کے اثرات کا شکار ہیں، اس شعبے میں اے آئی کا استعمال یقینی طور پر ایک جان بچانے والا اقدام ہوگا، بشرطیکہ اسے صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے۔

متحدہ عرب امارات میں تھنک میڈیا لیبز کے سی ای او ایمن اتانی نے کہا کہ دبئی طویل عرصے سے اعلی ترقی اور ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کی بنیاد رکھ رہا ہے۔

جب انسانی متبادل کے طور پر اے آئی کے خطرے پر بات چیت ہوئی تو اسمارٹ سٹی کونسل کے صدر کوری گری نے یہ وضاحت کی کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اے آئی میں انسانی جذبات، جیسے کہ کسی کو اداس کرنا، تمسخرا اڑانا یا کسی پر طنز کیا جانا شامل نہ ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی معلومات کی تیز رفتار پروسیسنگ میں بلاشبہ بہترین ہے اور اگر ایک اچھا ریگولیٹری اور اخلاقی ڈھانچہ ہو تو یہ آرگنائزیشن کے لئے بہت موثر ثابت ہوگا، ساتھ ہی اس کی نافذ کرنے کی شرائط جیسے کہ توانائی کی کھپت، پرائیویسی، سائبر سیکیورٹی وغیرہ پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔

صنعتی ماہرین نے ”آنے والے مصروف وقت“ کا حوالہ دیتے ہوئے اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کا تصور بھی ظاہر کیا۔

شہری منصوبہ بندی کے لحاظ سے، مستقبل کے لئے شہروں کا دوبارہ تصور اور ڈیزائن کیا جارہا ہے جس میں بزرگ نسل کو بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور اسے اپنانے کی ترغیب دینا شامل ہے۔

ڈیجیٹل پینانگ ایس ڈی این بی ایچ ڈی کے سی ای او این جی کوانگ منگ نے کہا کہ مصنوعی ذہانت نے ہمیں جو کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم منصوبہ بندی، ترقی اور تعمیر کو دیکھنے کے بہت سے طریقوں کا دوبارہ تصور کریں۔

سنگاپور کا حوالہ دیتے ہوئے منگ نے شہروں، نوجوان نسل اور عمر رسیدہ افراد میں ڈیجیٹل تقسیم پر روشنی ڈالی جو ’اسمارٹ شہروں‘ کو اپنانے میں سست روی کا شکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سنگاپور اس وقت ٹیلنٹ کی کمی کا سامنا کر رہا ہے، پروگرامرز کی کمی ہے لیکن مصنوعی ذہانت اس فرق کو پر کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر مصنوعی ذہانت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور درست ریگولیٹری فریم ورک اور پیرامیٹرز موجود ہوں تو یہ مستقبل کو زیادہ پیداواری اور موثر بنا سکتا ہے۔

Comments

200 حروف