سندھ حکومت نے 2022 میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

پاکستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی شرح حالیہ برسوں میں کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن 2022 میں غیر معمولی سیلاب کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں نے متنبہ کیا کہ موسمیاتی عدم تحفظ کی وجہ سے اس طرح کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

16 اگست کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اے ایف پی نے صوبہ سندھ میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے گاؤں میں پیسوں کے بدلے 13 اور 14 سال کی عمر میں شادی کرنے والی لڑکیوں سے بات کی۔

وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان رشید چنا نے اے ایف پی کو بتایا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا، ’وزیر اعلیٰ اس علاقے کے لوگوں پر بارش کے سماجی اثرات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ رپورٹ پیش ہونے کے بعد وہ علاقے کا دورہ کریں گے اور سفارشات تیار کریں گے۔

’’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی یہ روایت ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن سیلاب نے لوگوں کو بہت کمزور کر دیا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم سجاگ سنسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ خان محمد ملاح گاؤں میں گزشتہ سال مون سون کی بارشوں کے بعد سے 45 کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کی جا چکی ہیں جن میں سے 15 کی شادیاں اس سال مئی اور جون میں ہوئی تھیں۔

جولائی اور ستمبر کے درمیان موسم گرما کا مون سون لاکھوں کسانوں کے ذریعہ معاشی اور غذائی تحفظ کے لئے اہم ہے ، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صورتحال کو خراب کر رہی ہے ، جس سے لینڈ سلائیڈنگ ، سیلاب اور طویل مدتی فصلوں کے نقصان کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے مذہبی اسکالرز کے ساتھ مل کر کام کرنے والے سجاگ سنسر کے بانی مشوک برہمنی کا کہنا ہے کہ ’اس سے ’مون سون دلہنوں‘ کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔

سندھ کی زرعی پٹی کے بہت سے دیہات 2022 کے سیلاب سے نہیں نکل سکے ہیں ، جس سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا ، لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے اور فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔

گاؤں کی 65 سالہ بزرگ مائی ہجانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’2022 کی بارش وں سے پہلے ہمارے علاقے میں اتنی کم عمر لڑکیوں کی شادی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

Comments

200 حروف