دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک پاکستان کو بجلی کے شعبے کا مسئلہ درپیش ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اس کی مشکلات کا شکار معیشت کی بنیادی وجہ ہے جہاں کئی سالوں سے شرح نمو ناکافی ہے۔

پاکستان کے توانائی کا شعبہ، جہاں حکومت نے بجلی کی پیداواری صلاحیت کو 43,775 میگاواٹ تک بڑھا دیا ہے لیکن ٹرانسمیشن لائنیں صرف 22،000 میگاواٹ کو سنبھالنے کے قابل ہیں، اس وقت گرم ترین موضوعات میں سے ایک ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران ٹیرف میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت نے مزید 17,000 میگاواٹ بجلی شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

لیکن ماہرین لوگوں کی اضافی بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

منگل کے روز منعقد ہونے والی ’ایڈوانسنگ سی ٹی بی سی ایم - اے ملٹی اسٹیک ہولڈرز کانفرنس‘ کے دوران شعبہ صنعت سے وابستہ شخصیات نے الیکٹرک گرڈ کو چلانے کی حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے اضافی پیداواری صلاحیت اور ایسے معاہدوں، جس میں خریداری نہ کرنے کی صورت بطور جرمانہ ادائیگی ، کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کو فکسڈ چارجز ادا کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ ملک بجلی استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث گرڈ سے بجلی کی کھپت میں مزید کمی واقع ہوئی ہے جس سے توانائی کے شعبے کو ایک اور دھچکا لگا ہے۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پی اے سی آر اے) کی رواں سال فروری میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں ٹرانسمیشن خسارے کی مالی لاگت تقریبا 30.794 ارب روپے رہی۔

دریں اثنا بزنس ریکارڈر کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مالی سال 24-2023 کے دوران ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کو تقریبا 589 ارب روپے کا نقصان ہوسکتا ہے جس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی طے شدہ حد سے زیادہ ریکوری اور نقصان بھی شامل ہے۔

لہذا، ماہرین نے مسابقتی تجارتی دو طرفہ کنٹریکٹ مارکیٹ (سی ٹی بی سی ایم) نظام کی حمایت کی ہے جو بڑے پیمانے پر بجلی کے صارفین کو حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست جنریٹرز سے بجلی خریدنے کی اجازت دیتی ہے۔

تاہم پاکستان میں مارکیٹ کا ڈھانچہ سنگل خریدار ماڈل رہا ہے جس میں سی پی پی اے (سنگل خریدار کی حیثیت سے) ایکس واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی طرف سے بجلی خریدتا ہے۔

نومبر 2020 میں نیپرا نے سی ٹی بی سی ایم ماڈل کی منظوری دی جس میں پاکستان کی ہول سیل الیکٹری سٹی مارکیٹ کھولنے کے لیے روڈ میپ فراہم کیا گیا تھا جس کا مقصد بڑے پیمانے پر بجلی صارفین (ایک میگاواٹ یا اس سے زائد لوڈ کے ساتھ) کو ڈسکوز یا اپنی پسند کے مسابقتی سپلائر سے بجلی خریدنے کا انتخاب فراہم کرنا تھا۔

نیپرا کے سابق چیئرمین توصیف ایچ فاروقی، جو اپنے دور میں سی ٹی بی سی ایم کیس کو آگے بڑھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، نے کہا کہ سی ٹی بی سی ایم پاکستان کی معیشت کو مکمل طور پر کھڑا کردے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی ٹی بی سی ایم پر عمل درآمد ہی پاکستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کا واحد حل ہے۔ ایچ فاروقی نے کانفرنس کے موقع پر بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ بجلی کا مسئلہ پاکستان کے معاشی بحران کا مرکز ہے۔

گورننس کا موجودہ ڈھانچہ پاکستان کو دلدل سے نہیں نکال سکتا۔ سی ٹی بی سی ایم اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔

سی ٹی بی سی ایم کاروباری برادری کو با اختیار بناتا ہے کہ وہ کسی بھی دوسری چیز کی طرح جس سے چاہیں بجلی خرید سکتے ہیں۔ جب تک کاروبار کرنے کی لاگت کم نہیں ہوتی، پاکستان میں 250 ملین افراد جی ڈی پی میں اضافہ نہیں کر سکیں گے، روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی برآمدات میں اضافہ کر سکیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 17 سینٹ (فی یونٹ) کی شرح سے بجلی خریدنے سے پاکستانی کاروباری ادارے عالمی یا علاقائی حریفوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر اور اپٹما کے چیئرمین آصف انعام نے سی ٹی بی سی ایم کی کامیابی میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حصے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں بقا کے لئے توانائی کی مسابقتی قیمتیں ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی کاروباری اداروں کو 4.5 سینٹ پر بجلی مل رہی ہے جن کا بلکہ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا مقابلہ کرنا بھی تقریبا ناممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو پاکستانی کاروباری ادارے بنگلہ دیش جیسے مقامات پر منتقل ہوتے رہیں گے۔

سسٹین ایبل پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے احد نذیر نے کہا کہ ملک میں اجارہ داریاں اور ملی بھگت عام ہے۔ تاہم، مسابقتی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار، سی ٹی بی سی ایم کے مضمرات اور یورپی یونین کی طرح صارفین کے لیے توانائی کی لاگت کو کم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کی آزاد بجلی کی منڈیوں نے مسابقت اور کارکردگی میں اضافے کی وجہ سے مقامی توانائی کی قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد تک کی کمی ظاہر کی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والوں کے درمیان مسابقت کو فروغ دینے سے صارفین کی بجلی کی قیمتوں میں ممکنہ طور پر کمی ہو سکتی ہے، جس سے گھرانوں اور کاروباروں کے لیے استطاعت میں بہتری آئے گی۔

پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ایکویبل ڈیولپمنٹ (پی آر آئی ای ڈی) کی محقق شہیرا طاہر نے کہا کہ ایک مارکیٹ اسٹرکچر سے دوسرے مارکیٹ اسٹرکچر میں تبدیل ہونے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ ’منصفانہ‘ ہو اور صارفین پر پڑنے والے اثرات کا خیال بھی رکھے۔

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ پر مبنی بجلی کی پیداوار، فراہمی اور تقسیم کی طرف بڑھنا درحقیقت بجلی کے شعبے میں بہت اہم موڑ ہے حالانکہ یہ بالکل نئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں اس پر بات ہوئی تھی لیکن آج دہائیوں کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کے قابل بنانے کے لئے پورا ریگولیٹری فریم ورک تیار کیا گیا ہے۔ یہ امید افزا ہے لیکن اس وقت تک عمل نہیں کیا جانا چاہئے جب تک کہ کچھ شرائط کی جانچ نہ کی جائے۔ سب سے اہم یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مارکیٹ کے ایک ڈھانچے سے دوسرے مارکیٹ ڈھانچے میں تبدیلی ’منصفانہ‘ ہو اور صارفین پر پڑنے والے اثرات پر غور کیا جائے اور موجودہ افرادی قوت کی استعداد کار بڑھانے اور منتقلی کے لیے ایک منصوبہ بنایا جائے۔

نیپرا کی 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 43 ہزار 775 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت میں سے 59 فیصد توانائی تھرمل (فوسل فیول)، 25 فیصد ہائیڈرو، 7 فیصد قابل تجدید (ہوا، شمسی اور بائیو ماس) اور 9 فیصد نیوکلیئر سے آتی ہے۔

اس کانفرنس کا اہتمام توانائی اور ماحولیات سے متعلق تھنک ٹینک رینیوایبل فرسٹ اور پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ نے کیا تھا۔

رینیوایبل فرسٹ کے سی ای او ذیشان اشفاق نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ سب سے سستی بجلی قابل تجدید ذرائع جیسے شمسی اور ہوا کے ذریعے آتی ہے۔ اگر سی ٹی بی سی ایم کو نافذ کیا جاتا ہے تو قابل تجدید توانائی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

سسٹین ایبل پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ڈاکٹر خالد ولید نے زور دے کر کہا کہ سی ٹی بی سی ایم کا نہ صرف قیمتوں پر اثر پڑے گا بلکہ اس کا پائیدار حصہ سرحدوں کے پار بھی بڑا اثر ڈالے گا۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات پر مبنی صنعت میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے عالمی قواعد و ضوابط اور تعمیل کی ضروریات میں اضافہ دیکھا جائے گا۔

یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) اور بڑے عالمی برانڈز کے نیٹ زیرو وعدوں جیسی پالیسیاں پاکستان کے صنعتی شعبے کو 2050 تک اپنی پوری سپلائی چین کے ساتھ اپنے اخراج کو خالص صفر تک کم کرنے کا پابند کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صاف اور گرین انرجی کے ذرائع تیزی سے صنعتی کمپنیوں کیلئے مسابقتی برتری فراہم کرنے سے غیر مصالحتی کاروباری صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

کانفرنس کا اختتام چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کرنے کے ساتھ ہوا جس کی بڑے صنعتی اتحاد اور چیمبرز نے توثیق کی۔

چارٹر میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سسٹم چارج کے استعمال کے لئے مسابقتی اعداد و شمار اور کاروبار کے لئے بجلی کی مارکیٹ کھولنے کے لئے پہلے دو طرفہ لین دین کی تاریخ کا اعلان کرے۔

Bilal Hussain

The writer is a Reporter at Business Recorder (Digital)

Comments

200 حروف