پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) مالی سال 2023-24 کے دوران دنیا کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ایکوٹی مارکیٹ کے طور پر ابھری ہے ۔ رواں مالی سال کے آخری کاروباری روزبینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 78444.96 پر بند ہوا جو گزشتہ مالی سال 41452.69 پوائنٹس پر بند ہوا تھا ۔

مالی سال 24 کے دوران بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس نے روپے کے لحاظ سے 89 فیصد سالانہ منافع ریکارڈ کیا جب کہ ڈالر کے لحاظ سے 94 فیصد منافع حاصل ہوا ۔

بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس سے پی ایس ایکس کو دنیا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا انڈیکس بننے میں مدد ملی، ترکی اور رومانیہ بالترتیب 48.2 فیصد اور 42.7 فیصد منافع کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا کہ منافع میں زیادہ تر اضافے کی وجہ پرائس ٹو ارننگ (پی ای) کی ری ریٹنگ ہے جو 30 جون 2023 میں 2.2-2.4 گنا سے بڑھ کر 28 جون 2024 میں 3.94 گنا ہوگئی۔

پی ای ملٹی پل ری ریٹنگ کی وجہ معاشی اشاریوں میں بہتری ہے، یعنی مالی سال 24 کے 11 ماہ کے دوران برآمدات اور ترسیلات زر میں بالترتیب 11 فیصد اور 9 فیصد اضافہ ہوا ، افراط زر مئی23 میں 38.0 فیصد سے کم ہو کر مئی 2024 میں 11.8 فیصد ہو گئی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا کامیاب آغاز اور تکمیل، عام انتخابات 2024 کا ہموار انعقاد اور حکومت کی ہموار منتقلی اور نئے پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا بروقت آغاز اس کی وجوہات بتائی گئیں۔

مالی سال 2024ء کے دوران پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی میں 2.38 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 23ء میں منفی شرح نمو 0.21 فیصد رہی تھی۔ مزید برآں اسٹیٹ بینک (ایس بی پی) کے پاس موجود زرمبادلہ ذخائر میں 4.4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو 21 جون 2024 ء کو 8.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔

گزشتہ سال جون میں آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد جس نے پاکستان کو دوطرفہ اور کثیر الجہتی قرض دہندگان سے قرض کے حصول میں مدد کی ، فچ نے ملک کی خودمختار درجہ بندی کو منفی سی سی سی سے سی سی سی کردیا جب کہ ایم ایس سی آئی ایف ایم انڈیکس میں پاکستان کا وزن ~ 0.6 فیصد سے بڑھ کر~ 2.7 فیصد ہوگیا جس سے ملکی اسٹاک ایکسچینج میں غیر ملکی خریداروں کی دلچسپی کو راغب کرنے میں مدد ملی۔

عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے کہا کہ مالی سال 24 میں 141 ملین ڈالر کی غیر ملکی خریداری کی سرگرمی دیکھی گئی ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سرمایہ کاری زیادہ تر بینکوں (60 ملین ڈالر)، دیگر شعبوں (36 ملین ڈالر)، کھاد (18 ملین ڈالر)، بجلی (16 ملین ڈالر) اور سیمنٹ (13 ملین ڈالر) میں ہوئی جبکہ خالص فروخت قرض (17 ملین ڈالر) میں دیکھی گئی۔

داخلی محاذ پر حکومت کی جانب سے گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے توانائی شعبے کے لیے 1250 ارب روپے جاری کرنے کی منصوبہ بندی کی اطلاعات نے انڈیکس میں تیزی کو مزید ہوا دی۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے عزم نے بھی مثبت رفتار میں کردار ادا کیا۔

مالی سال 24 کے دوران ایس سی بی پی ایل، ایس آر وی آئی، بی اے ایچ ایل، ایم ای بی ایل اور ایف ایف بی ایل میں بالترتیب 293 فیصد، 268 فیصد، 234 فیصد، 219 فیصد اور 213 فیصد کے مثبت منافع دیکھنے میں آئے۔ دریں اثنا، سال کے دوران منفی کارکردگی ٹی آر جی، لوٹکیم، جی اے ڈی ٹی، یو پی ایف ایل اور آر ایم پی ایل سے آئی، جن میں سے ہر ایک نے بالترتیب 33 فیصد، 30 فیصد، 29 فیصد، 19 فیصد اور 6 فیصد کا منفی منافع حاصل کیا۔

مالی سال 25 کے لئے آوٹ لک

ماہرین کا خیال ہے کہ آمدنی میں اضافے کی رفتار جاری رہنے کی توقع ہے جس سے انڈیکس کو تقویت ملنی چاہئے۔

تاہم، ترقی کو جاری رکھنے کے لئے، آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا معاہدہ اہم ہوگا۔

اپریل میں 9 ماہ کا ایس بی اے مکمل ہونے کے بعد، پاکستان ایک نئے اور بڑے بیل آؤٹ پروگرام کے لئے واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف کا وفد نئے ای ایف ایف پروگرام کے لیے دوبارہ پاکستان پہنچے گا ، لہذا آئی ایم ایف عملے کے دورے کے دوران سامنے آنے والی کوئی بھی خبر مارکیٹ کی سمت کا تعین کرے گی۔

توقع ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام کامیابی کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے تو اس سے مارکیٹ کی رفتار میں اضافہ ہوگا جبکہ دیگر کثیر الجہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی جس سے پاکستان کی بیرونی پوزیشن میں اضافہ ہوگا۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کا ماننا ہے کہ متوقع مالیاتی نرمی، غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے، کم افراط زر اور گردشی قرضوں کے بتدریج حل، ہائی لیورج، فارما، کنزیومر اور گردشی قرضوں سے متاثر کمپنیاں / شعبے اگلے 12 ماہ میں سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کریں گے۔

اے ایچ ایل کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں غیر متوقع کمی اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کے خطرے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

Comments

200 حروف