اردن نے غزہ میں آٹھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری تباہ کن جنگ کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد کے حوالے سے منگل کو ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، جہاں اقوام متحدہ نے قحط کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

علاقے کو خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی منقطع ہونے کی وجہ سے غزہ کے باشندوں کی اکثریت زمینی، سمندری اور فضائی راستوں سے امداد کی فراہمی پر انحصار کرتی ہے۔

اردن کی شاہی عدالت کے مطابق اس سربراہی اجلاس کا مقصد رہنماؤں اور امدادی حکام کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ ”غزہ کی پٹی میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کے ردعمل کو بڑھانے کے طریقوں کا تعین کیا جا سکے“۔

اس کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ، اردن اور مصر نے بحیرہ مردار کے ساحل پر مشترکہ طور پر کیا ہے اور اس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے علاوہ فلسطینی صدر محمود عباس بھی شرکت کریں گے۔

جنگ شروع ہونے کے بعد بلنکن خطے کے آٹھویں دورے پر ہیں، جس کا مقصد مئی کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کو آگے بڑھانا ہے۔

اس تجویز کے تحت اسرائیل غزہ کے آبادی کے مراکز سے انخلا کرے گا اور حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ جنگ بندی ابتدائی چھ ہفتوں تک جاری رہے گی، جس میں توسیع کی جائے گی کیونکہ مذاکرات کار دشمنی کے مستقل خاتمے کے خواہاں ہیں۔

غزہ کا بیشتر حصہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کے تقریبا تمام 2.4 ملین افراد 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے ہیں۔

غزہ کے لیے امداد پر شدید پابندیاں عائد ہیں، خاص طور پر مئی میں مصر کے ساتھ رفح سرحد ی گزرگاہ کی بندش کے بعد سے، جو انسانی ہمدردی اور ایندھن کی ترسیل کا اہم ذریعہ ہے۔

اردن کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں جلد بحالی کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور غزہ میں انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اور مربوط ردعمل کے عزم کا اظہار کیا جائے گا۔

وزارت نے ایک بیان میں مزید کہا کہ ”اس سربراہی اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات پر اتفاق رائے تک پہنچنا ہے“۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے مطابق حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں 1،194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس گروپ نے 251 اسرائیلیوں کو بھی یرغمال بنایا جن میں سے 100 سے زائد کو نومبر کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب بھی 116 یرغمالی موجود ہیں جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 41 ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی فوجی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 37 ہزار 124 افراد شہید ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

Comments

200 حروف