ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی واپسی، 47 ویں امریکی صدر منتخب

  • 78 سالہ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے درکار 270 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کر کے وائٹ ہاؤس پر دوبارہ براجمان ہوگئے
اپ ڈیٹ 06 نومبر 2024

ڈونلڈ ٹرمپ 47 ویں امریکی صدر منتخب ہوگئے جو ان کے اقتدار کے پہلے دور کے خاتمے کے 4 سال بعد وائٹ ہاؤس میں دوبارہ پہنچنے کا بہترین انداز ظاہر کرتا ہے۔ ان کی واپسی سے امریکہ میں ایک نئی قیادت کا آغاز ہوگا جو ممکنہ طور پر داخلی جمہوری اداروں اور بیرونی تعلقات کو چیلنج کرے گی۔

ٹرمپ، جو 78 سال کے ہیں، نے بدھ کو 270 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کر کے وائٹ ہاؤس واپس حاصل کیا، جیسا کہ ایڈیسن ریسرچ نے پیش گوئی کی اور یہ ایک ایسی انتخابی مہم کے بعد تھا جس میں ملک میں مزید پولرائزیشن (تقسیم) میں اضافہ کرنے والی سخت زبان استعمال کی گئی۔

سویئنگ اسٹیٹ وسکونسن میں سابق صدر کی فتح نے انہیں جیت کے قریب پہنچا دیا۔ ٹرمپ نے دن کے دوران ٹرمپ نے 279 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ کمیلا ہیریس کے پاس 223 ووٹ تھے اور کئی ریاستوں کے نتائج ابھی آنا باقی تھے۔

اس کے علاوہ، ٹرمپ کو ہیریس کیخلاف عوامی ووٹنگ میں تقریباً 5 ملین ووٹس کی برتری حاصل ہے۔

فلوریڈا میں پام بیچ کاؤنٹی کنونشن سینٹر میں بدھ کی صبح اپنے حامیوں کے ایک پرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا امریکہ نے ہمیں بے مثال اور طاقتور مینڈیٹ دیا ہے۔

۔

ٹرمپ کا سیاسی کیریئر اس وقت ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا جب ان کے انتخابی فراڈ کے دعووں کی وجہ سے 6 جنوری 2021 کو ان کے حامیوں کے ایک ہجوم نے 2020 میں ان کی شکست کو بدلنے کی ناکام کوشش میں یو ایس کیپیٹل پر دھاوا بول دیا تھا۔

لیکن انہوں نے اپنی ریپبلکن پارٹی کے اندر موجود حریفوں کو شکست دی اور پھر ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کو بھی ہرادیا۔ ٹرمپ نے قیمتوں میں اضافے پر ووٹرز کی تشویش اور اپنے ان دعوؤں کا فائدہ اٹھایا کہ امریکہ میں جرائم بڑھنے کی وجہ تارکین وطن ہیں۔

ہیرس نے ان حامیوں سے بات نہیں کی جو ہاورڈ یونیورسٹی میں جمع ہوئے تھے۔ ان کی انتخابی مہم کے شریک چیئرمین سیڈرک رچمنڈ نے آدھی رات کے بعد حاضرین سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہیرس بدھ کے روز عوامی سطح پر خطاب کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ووٹوں کی گنتی ابھی باقی ہے۔

امریکی سینیٹ میں ریپبلکنز نے اکثریت حاصل کر لی ہے لیکن ایوان نمائندگان پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی میں کسی بھی جماعت کو برتری حاصل نہیں ہے۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد دنیا بھر کی بڑی اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی دیکھی گئی اور ڈالر 2020 کے بعد سے ایک دن میں اپنی سب سے بڑی چھلانگ کے لیے تیار تھا۔

روزگار اور معیشت

رائٹرز / ایپسوس کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق رائے دہندگان نے ملازمتوں اور معیشت کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ اسٹاک مارکیٹوں میں ریکارڈ اضافے تیزی سے بڑھتی ہوئی اجرتوں اور کم بے روزگاری کے باوجود بہت سے امریکی قیمتوں میں اضافے سے مایوس رہے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے زیادہ تر ذمہ داری قبول کیے جانے کے بعد رائے دہندگان کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہیرس سے زیادہ ٹرمپ پر اعتماد کرتے ہیں۔

ہسپانوی نژاد امریکی، جو روایتی طور پر ڈیموکریٹک ووٹر ہیں، اور وہ کم آمدنی والے گھرانے جنہیں افراطِ زر نے سب سے زیادہ متاثر کیا، ٹرمپ کی انتخابی فتح میں معاون ثابت ہوئے۔ ان کا وفادار حلقہ، جو دیہی علاقے کے سفید فام اور غیر یونیورسٹی تعلیم یافتہ ووٹرز پر مشتمل تھا، ایک بار پھر بڑی تعداد میں سامنے آیا۔

مسلسل کم مقبولیت کی درجہ بندی کے باوجود ٹرمپ غالب رہے۔ ان کا دو بار مواخذہ کیا گیا، چار بار مجرمانہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی اور انہیں جنسی استحصال اور ہتک عزت کا ذمہ دار پایا گیا۔ مئی میں نیویارک کی جیوری نے ٹرمپ کو ایک پورن اسٹار کو خفیہ رقم کی ادائیگی وں کو چھپانے کے لئے کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔

ان کی کامیابی کے امریکی تجارت اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں، یوکرین کی جنگ، امریکیوں کے ٹیکسوں اور امیگریشن پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ان کی محصولات کی تجاویز چین اور امریکی اتحادیوں کے ساتھ ایک شدید تجارتی جنگ کو جنم دے سکتی ہیں جبکہ کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور نئی کٹوتیوں کو نافذ کرنے کے ان کے وعدوں سے امریکی قرضوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ٹرمپ نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو نشانہ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ ان سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کا اختیار چاہتے ہیں جنہیں وہ غیر وفادار سمجھتے ہیں۔ ان کے مخالفین کو خوف ہے کہ وہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ اور دیگر وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی ہتھیار بنا کر اپنے مخالفین کی تحقیقات کے لیے استعمال کریں گے۔

ٹرمپ کی دوسری صدارت ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان نسلی تفریق، صنفی مسائل، بچوں کو کیا اور کیسے پڑھایا جائے، اور تولیدی حقوق جیسے مسائل پر مزید تقسیم پیدا کر سکتی ہے۔

ہیرس پیچھے رہ گئی

نائب صدر ہیرس بطور امیدوار 15 ہفتوں کی دوڑ میں ناکام رہیں اور 2017 سے 2021 تک وائٹ ہاؤس پر قابض رہنے والے ٹرمپ کو شکست دینے یا معیشت اور امیگریشن کے بارے میں رائے دہندگان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

ہیرس نے متنبہ کیا تھا کہ ٹرمپ بلا روک ٹوک صدارتی اقتدار چاہتے ہیں اور ’جمہوریت کے لیے خطرہ‘ ہیں۔

ایڈیسن ریسرچ ایگزٹ پولز کے مطابق تقریبا تین چوتھائی رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ امریکی جمہوریت خطرے میں ہے، جو ایک ایسے ملک میں پولرائزیشن کی نشاندہی کرتا ہے جہاں سخت مسابقتی دوڑ کے دوران تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔

ٹرمپ نے ایک ایسی مہم چلائی جس میں تباہ کن زبان استعمال کی گئی تھی۔ انھوں نے امریکہ کو تارکین وطن کے لیے ’کچرے کا ڈبہ‘ قرار دیا، معیشت کو ’تباہی‘ سے بچانے کا وعدہ کیا اور کچھ حریفوں کو ’اندرونی دشمن‘ قرار دیا۔

ان کے بیانات اکثر تارکین وطن کو نشانہ بناتے تھے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’ملک کو تباہ کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ کملا ہیرس بھی ہدف تنقید تھی جنہیں وہ اکثر غیر دانشمند قرار دیتے تھے۔

قانونی مشکلات اور تنازعات کے باوجود، ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد دوسری مدت جیتنے والے صرف دوسرے سابق صدر ہیں۔ پہلے گروور کلیولینڈ تھے ، جنہوں نے 1885 اور 1893 میں شروع ہونے والی دو چار سالہ مدتوں میں خدمات انجام دیں۔

بے مثال مہم

منی لانڈرنگ کیس میں سزا سنائے جانے کے دو ماہ بعد جولائی میں پنسلوانیا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے گولی ٹرمپ کے کان پر لگی جس سے سیاسی تشدد کے خدشات میں اضافہ ہوا تھا۔ ستمبر میں ان کے فلوریڈا گالف کورس میں قتل کی ایک اور کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے ان دونوں کوششوں کا ذمہ دار ہیرس سمیت ڈیموکریٹس کی گرما گرم بیان بازی کو قرار دیا۔

جولائی میں ہونے والی فائرنگ کے محض آٹھ دن بعد 81 سالہ بائیڈن صدارتی انتخاب کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے اور ٹرمپ کے ساتھ مباحثے کے دوران ناقص کارکردگی کے بعد اپنے ساتھی ڈیموکریٹس کے کئی ہفتوں کے دباؤ کے سامنے جھک گئے تھے۔

بائیڈن کے عہدے سے دستبردارہونے کے فیصلے نے مقابلے کو ایک دوڑ میں تبدیل کر دیا کیونکہ ہیرس نے عام مہینوں کے بجائے چند ہفتوں میں اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کی کوشش کی۔ ان کے صدارتی امیدوار بننے کے بعد ڈیموکریٹس کو ایک بار پھر تقویت ملی اور انہوں نے رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ کی مضبوط برتری کو ختم کرتے ہوئے تین ماہ سے بھی کم عرصے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ جمع کیے۔

ہیریس کے مالی فائدے کا کچھ حد تک مقابلہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے کیا، جنہوں نے ٹرمپ کے ووٹرز کو متحرک کرنے والی ایک سپر پی اے سی میں 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی اور اپنی سوشل میڈیا سائٹ ایکس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے حق میں پیغامات کو مزید پھیلایا۔

جیسے جیسے انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہنچی ہیرس نے امریکیوں کو ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے خطرات کے بارے میں خبردار کرنے پر توجہ مرکوز کی اور ناراض ریپبلکنز کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی پیشکش کی۔

انہوں نے ٹرمپ کے سابق چیف آف اسٹاف اور میرین کور کے ریٹائرڈ جنرل جان کیلی سمیت ٹرمپ کے متعدد سابق عہدیداروں کے بیانات کو اجاگر کیا جنہوں نے ٹرمپ کو ”فاشسٹ“ قرار دیا تھا۔

ایموری یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ایلن ابرامووٹز نے کہا کہ ٹرمپ کی جیت امریکی معاشرے میں دراڑوں کو وسیع کرے گی کیونکہ ان کے انتخابی دھوکہ دہی، تارکین وطن مخالف بیانات اور اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے جھوٹے دعوے ہیں۔

ٹرمپ کی دوسری مدت

وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے رواں ماہ کے آخر تک الیکٹرک پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔

ٹرمپ نے ایگزیکٹیو برانچ کو از سر نو تشکیل دینے کا عہد کیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے سیاسی دشمنوں کے خلاف تحقیقات کے لیے استعمال کرنا شامل ہے جو ایسی ایجنسیوں کو آزاد رکھنے کی دیرینہ پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔

اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ کے انتہائی مطالبات کو بعض اوقات ان کی اپنی کابینہ کے ارکان نے روک دیا تھا خاص طور پر جب نائب صدر مائیک پینس نے کانگریس کو 2020 کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے روکنے سے منع کردیا تھا۔

ایک بار جب 2024 کے انتخابات کے نتائج 6 جنوری 2025 کو کانگریس سے تصدیق ہو جائیں گے تو ٹرمپ اور ان کے نائب صدر منتخب، امریکی سینیٹر جے ڈی وینس، 20 جنوری کو حلف اٹھا کر عہدہ سنبھالیں گے۔ اپنی دو سالہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ اپنی انتظامیہ میں اسٹافنگ کے حوالے سے ذاتی وفاداری کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے اپنے حامی ایلون مسک اور سابق صدارتی امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کو اپنی انتظامیہ میں کردار دینے کا وعدہ کیا۔

Read Comments