آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے ایکسپورٹ فنانس اسکیم (ای ایف ایس) کے تحت یارن اور کپڑے کی درآمد پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے گھریلو ٹیکسٹائل سیکٹر میں بڑھتے ہوئے بحران کا انتباہ دیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپٹما کے چیئرمین کامران ارشد نے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر جاسو مل اور پی سی جی اے کے سابق چیئرمین سہیل حرال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارت خزانہ کے ساتھ سال بھر کے مذاکرات کے باوجود صنعت کے خدشات دور نہیں کیے گئے ۔
ای ایف ایس کو 2021 میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس نے پہلے 18 ماہ تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے ٹیکسٹائل برآمدات کو 19.5 ارب ڈالر تک پہنچنے میں مدد ملی لیکن گزشتہ 3 سال سے برآمدات جمود کا شکار ہیں۔
مالی سال 25 کے فنانس بل کے تحت حکومت نے ای ایف ایس کے تحت مقامی طور پر حاصل کردہ ان پٹ پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جبکہ درآمدشدہ خام مال کو سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی دونوں سے مستثنیٰ رکھا۔ اپٹما کا کہنا ہے کہ اس سے عدم مساوات پیدا ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا ٹیکسٹائل خام مال کی درآمدات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں 120 ٹیکسٹائل ملز اور 1200 جننگ یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ای ایف ایس فریم ورک کو بحال کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں لیکن ہم کامیاب نہیں ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی خام مال پر عائد 18 فیصد سیلز ٹیکس قابل واپسی ہے، سیلز ٹیکس کی واپسی میں تاخیر، ادھوری ادائیگیاں اور پیچیدہ عمل ایس ایم ایز کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
کامران ارشد نے کہا کہ صرف 60 سے 70 فیصد ریفنڈ جاری کیے جاتے ہیں، ریفنڈز پھنسے ہوئے ہیں، جن میں گزشتہ 5 سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس عدم مساوات کی وجہ سے برآمد کنندگان نے درآمد شدہ خام مال کی طرف رخ کرلیا ہے، جس سے مقامی سپلائرز کو نقصان پہنچا ہے۔ اپٹما کے مطابق، مالی سال 2025 میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 1.5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، لیکن کپاس، دھاگہ اور گریج کپڑے کی درآمدات میں 1.6 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جس سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا۔
ایسوسی ایشن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 100 سے زیادہ اسپننگ یونٹس – جو کل صلاحیت کا 40 فیصد ہیں – بند ہوگئے ہیں ، جبکہ بقیہ یونٹ 50 فیصد سے کم گنجائش پر کام کر رہے ہیں اور بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ یہ بحران جلد ہی نچلے سطح کے شعبوں تک پھیلنے کا امکان ہے۔
ایس ایم ایز جو براہ راست مواد درآمد کرنے کی سہولت سے محروم ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں کیونکہ وہ پیداوار کے ہر مرحلے پر ٹیکس ادا کرتی ہیں۔
اپٹما نے کپاس کی کاشتکاری میں بڑھتی ہوئی بحران کی نشاندہی کی۔ سپورٹ قیمت کی کمی اور مقامی اسپنرز کی طرف سے مانگ میں کمی کے باعث، کئی کسان پانی زیادہ خرچ کرنے والی فصلوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی کپاس کی پیداوار پانچ ملین بیلز کی تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور مزید کمی کا امکان ہے۔
کامران ارشد نے کہا کہ کپاس کی معیشت دیہی آمدنی میں 2-3 ارب ڈالر کی مدد کرتی ہے، خاص طور پر کپاس کی چنائی کرنے والی خواتین کے لیے۔ ’’ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش خطرے میں ہے۔ پالیسی ایڈجسٹمنٹ سے خالص غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدنی میں 1.5 سے 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
اپٹما نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سرپلس کا مسئلہ حل نہ کیا تو وہ تمام پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کر سکتا ہے۔ امریکہ سے درآمد کی جانے والی سب سے بڑی شے کپاس ہے، اور امریکہ نے پاکستان کو 15 لاکھ گانٹھوں تک کپاس برآمد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے — لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب مقامی اسپننگ انڈسٹری اسے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اگرچہ شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد اور بجلی کے نرخوں میں 7.69 روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے تاہم اپٹما کا کہنا ہے کہ یہ فوائد ای ایف ایس سے متعلق پالیسی ناکامیوں کی وجہ سے بے اثر ہو رہے ہیں۔
کامران ارشد نے خبردار کیا کہ اگر مقامی اسپننگ سیکٹر بحال نہ ہوا تو اضافی امریکی کپاس درآمد نہیں کی جا سکے گی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مقامی خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ فوری طور پر بحال کی جائے اور ایکسپورٹ فنانس اسکیم کے تحت تمام یارن اور کپڑے کی درآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔
اپٹما نے تخمینہ لگایا ہے کہ تقریباً 60 لاکھ خاندان روزگار کیلئے ٹیکسٹائل شعبے پر منحصر ہیں اور متنبہ کیا کہ مسلسل غیر فعالیت صنعتی زوال کو تیز کرسکتی ہے اور ملک کے تجارتی اور مالی عدم توازن کو مزید خراب کرسکتی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments