یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی نے پیر کے روز بوچا کا دورہ کیا، جہاں تین سال قبل روسی فوج پر سیکڑوں عام شہریوں کے قتل کا الزام ہے۔ انہوں نے یورپی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ مزید قتل عام کو روکنے کے لیے متحد ہوں۔

مارچ 2022 میں روسی فوج کے ایک ماہ طویل قبضے کے خاتمے کے بعد، اے ایف پی کے صحافیوں نے بوچا کی گلیوں میں کم از کم 20 شہریوں کی لاشیں دیکھی تھیں، جنہیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا، بعض کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ اس دریافت کے بعد روس کے زیرِ قبضہ دیگر شہروں میں بھی جنگی جرائم کی تحقیقات شروع ہوئیں۔

بوچا میں ایک تقریب کے دوران زیلنسکی نے کہا، “یہ مت بھولیے کہ بوچا صرف یوکرین کا ایک شہر نہیں، بلکہ یہ کسی بھی یورپی ملک میں ہو سکتا تھا اگر ہم نے روس کو اس جنگ کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا۔

انہوں نے اپنی اہلیہ اولینا زیلنسکا کے ساتھ یادگاری مقامات پر شمعیں روشن کیں۔ یورپی ممالک کے پارلیمانی اسپیکر، بشمول برطانوی ہاؤس آف کامنز کے اسپیکر، لنڈسے ہوئل بھی اس موقع پر موجود تھے۔

زیلنسکی نے بتایا کہ یوکرینی حکام نے 1,80,000 سے زائد جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے انصاف کی امید ہے۔

انہوں نے روس پر عائد پابندیاں ہٹانے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کو جنگ سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ”روس پر دباؤ اور پابندیاں ضروری ہیں تاکہ یہ جنگ مزید نہ پھیلے۔“

Comments

200 حروف