ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد خبردار کیا ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ امریکا ہمیں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

خامنہ ای نے کہا اگر امریکا کی جانب سے یہ عمل کیا گیا تو انہیں یقینی طور پر سخت جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہفتے کو ایک انٹرویو کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام پر معاہدہ نہیں کرتا تو اسے بمباری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا تو بمباری ہوگی۔ این بی سی نیوز کے مطابق ٹرمپ نے ایران پر ثانوی ٹیرف بھی لگانے کی دھمکی دی۔

یہ واضح نہیں تھا کہ ٹرمپ امریکہ کے طیاروں کے ذریعے بمباری کی دھمکی دے رہے تھے یا اسرائیل کے ساتھ مل کر کسی آپریشن کی بات کررہے تھے۔

جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے مہم دوبارہ شروع کردی ہے۔

اسی پالیسی کے تحت صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک تاریخی معاہدے سے امریکہ کو الگ کر لیا تھا اور تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔

امریکہ سمیت مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کا الزام عائد کرتے رہے ہیں جسے ایران نے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی یورینیم افزودگی کی سرگرمیاں صرف پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔

’بالواسطہ‘ مذاکرات کے لیے تیار

تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت ایران کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری عزائم کو محدود کرنا تھا۔

7 مارچ کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو جوہری مذاکرات کی دعوت دینے اور اگر ایران انکار کرے تو ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی دینے کے لیے خط لکھا تھا۔

یہ خط متحدہ عرب امارات کے صدارتی مشیر انور قرقاش نے 12 مارچ کو تہران کو پہنچایا تھا۔

جمعرات کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ ایران نے عمان کے ذریعے ٹرمپ کے خط کا جواب پہنچا دیا ہے۔

عباس عراقچی نے ایران کے موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایران ”زیادہ دباؤ اور فوجی کارروائی کی دھمکیوں“ کے تحت امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں چاہتا، تاہم انہوں نے بالواسطہ مذاکرات کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

واضح رہے کہ عمان ماضی میں بھی امریکہ اور ایران کے درمیان 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے کے باعث ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

مغربی ممالک ایران پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ وہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے پراکسی فورسز کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

خامنہ ای نے اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں صرف ایک پراکسی فورس ہے اور وہ بدعنوان غاصب صیہونی حکومت ہے۔

Comments

200 حروف