نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی کے بائی بیک ریٹ میں کمی، 10 روپے فی یونٹ مقرر
- فیصلے کا مقصد گرڈ صارفین پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنا ہے، فنانس ڈویژن
- نظر ثانی شدہ فریم ورک ان موجودہ نیٹ میٹرڈ صارفین پر لاگو نہیں ہوگا جن کے پاس جائز لائسنس یا معاہدہ موجود ہو۔
حکومت نے نیٹ میٹرنگ کیلئے بجلی کے بائی بیک ریٹ کو کم کرکے 10 روپے فی یونٹ کردیا ہے اور اس فیصلے کی وجہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہے جس سے گرڈ صارفین کو مالی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گرڈ صارفین پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے موجودہ نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ منظور شدہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر ای سی سی نے نیشنل ایوریج پاور پرچیز پرائس (این اے پی پی) سے بائی بیک ریٹ کو 10 روپے فی یونٹ کر دیا ہے۔
اعلامیے کے مطاق یہ فیصلہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافے اور اس کے نتیجے میں گرڈ صارفین پر مالی اثرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
ای سی سی کو بتایا گیا کہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو دسمبر 2024 تک 2 لاکھ 83 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ اکتوبر 2024 میں یہ تعداد 2 لاکھ 26 ہزار 440 تھی۔ اس کے علاوہ 2021 میں 321 میگاواٹ سے بڑھ کر دسمبر 2024 تک 4124 میگاواٹ ہو گئی۔
بیان کے مطابق کمیٹی نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو وقتا فوقتا اس بائی بیک ریٹ پر نظر ثانی کی اجازت دی تاکہ فریم ورک لچکدار اور مارکیٹ کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ رہے۔
تاہم یہ واضح کیا گیا کہ نظر ثانی شدہ فریم ورک کا اطلاق موجودہ نیٹ میٹرڈ صارفین پر نہیں ہوگا جن کے پاس نیپرا (متبادل اور قابل تجدید توانائی) تقسیم شدہ جنریشن اینڈ نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز، 2015 کے تحت درست لائسنس، رضامندی یا معاہدہ ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی قسم کے معاہدے کا اثر اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک لائسنس یا معاہدہ ختم نہ ہو جائے، جو بھی پہلے ہو۔ اس سے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان صارفین کے حقوق اور ذمہ داریاں، بشمول طے شدہ نرخ، موجودہ شرائط کے مطابق جاری رہیں گے۔
مزید برآں، ای سی سی نے تصفیے کے طریقہ کار کو اپ ڈیٹ کرنے کی بھی منظوری دی۔
نئے ڈھانچے کے تحت، درآمد شدہ اور برآمد شدہ یونٹس کو بلنگ کے مقصد کے لیے علیحدہ طور پر زیرِ غور لایا جائے گا۔ برآمد شدہ یونٹس کو 10 روپے فی یونٹ کی نظر ثانی شدہ بائی بیک قیمت پر خریدا جائے گا جبکہ درآمد شدہ یونٹس کو ماہانہ بلنگ سائیکل کے دوران متعلقہ پیک/آف پیک نرخوں کے مطابق، ٹیکسز اور سرچارجز سمیت، بل کیا جائے گا۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ای سی سی نے پاور ڈویژن کو بھی مجوزہ رہنما اصول جاری کرنے کی اجازت دی جو کہ کابینہ کی توثیق کے بعد نیپرا کو دیے جائیں گے تاکہ انہیں متعلقہ ضابطہ کاری کے فریم ورک میں شامل کیا جا سکے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ان ترامیم کے نفاذ میں وضاحت اور تسلسل ہو۔ یہ فیصلہ سولر نیٹ میٹرنگ کے قومی پاور گرڈ پر بڑھتے ہوئے اثرات پر وسیع بحث کے بعد لیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق پاور ڈویژن نے سولر پینل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا حوالہ دیتے ہوئے ریگولیٹری ایڈجسٹمنٹ کی اشد ضرورت پر روشنی ڈالی جس کی وجہ سے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر 2024 تک سولر نیٹ میٹرنگ صارفین نے گرڈ صارفین پر 159 ارب روپے کا بوجھ منتقل کیا تھا جو بروقت ترمیم کے بغیر 2034 تک بڑھ کر 4240 ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔
ای سی سی کو بتایا گیا کہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو دسمبر 2024 تک 2 لاکھ 83 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ اکتوبر 2024 میں یہ تعداد 2 لاکھ 26 ہزار 440 تھی۔ اس کے علاوہ 2021 میں 321 میگاواٹ سے بڑھ کر دسمبر 2024 تک 4124 میگاواٹ تک پہنچ گئی، جو نیٹ میٹرنگ سیکٹر کی تیزی سے توسیع کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں اضافے سے گرڈ صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ای سی سی نے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مالی مضمرات پر بھی تبادلہ خیال کیا، خاص طور پر جب وہ ٹیرف کے فکسڈ چارجز کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں، جس میں کیپسٹی چارجز اور بجلی کی ڈسٹریبیوشن اور ٹرانسمیشن اداروں کے طے شدہ اخراجات شامل ہیں۔
اس سے گرڈ صارفین پر غیر متناسب مالی بوجھ پڑا ہے، جس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کو نقصان پہنچا ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ سولر نیٹ میٹرنگ کے 80 فیصد صارفین 9 بڑے شہروں میں مرکوز ہیں جن میں سے ایک اہم تناسب خوشحال علاقوں میں واقع ہے۔
یہ جغرافیائی ارتکاز توانائی کی تقسیم کے نظام میں شفافیت اور توازن کو یقینی بنانے کے لئے ریگولیٹری اصلاحات کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
فنانس ڈویژن نے کہا کہ ای سی سی کی جانب سے منظور کردہ ترامیم بجلی کے شعبے کی پائیداری کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ تمام صارفین خصوصاً ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں جو بجلی کے لیے گرڈ پر انحصار کرتے ہیں۔
Comments