ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہفتہ قبل ولادیمیر زیلنسکی کو آمر قرار دیا تھا، لیکن جمعہ کو وہ یوکرینی صدر کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی کریں گے اور ایک معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے تحت واشنگٹن کو یوکرین کے نایاب معدنیات تک رسائی حاصل ہوگی۔
یہ غیر معمولی تبدیلی ایک ایسے ہفتے کے اختتام پر ہوئی ہے جب واشنگٹن میں تیز رفتار بین الاقوامی سفارت کاری نظر آئی، جبکہ کیف ٹرمپ کے حالیہ روس نواز مؤقف کے باوجود حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے دو ہفتے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات چیت کرکے اور کیف کو شامل کیے بغیر تین سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرکے امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کر دی۔ انہوں نے اتحادیوں کو اس وقت بھی پریشان کر دیا جب انہوں نے زیلنسکی کو ”بغیر انتخابات والا آمر“ قرار دیا اور فروری 2022 میں روسی حملے کا الزام یوکرین پر عائد کیا۔
لیکن حالیہ دنوں میں، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے دوروں کے بعد ٹرمپ کا لہجہ نرم ہو گیا ہے۔ جمعرات کو ٹرمپ نے زیلنسکی کے بارے میں کہا کہ انہیں ان کی بہت عزت ہے اور وہ بہت اچھے تعلقات قائم کریں گے۔
ٹرمپ نے زیلنسکی پر کی گئی ”آمر“ والی تنقید سے بھی پیچھے ہٹنا شروع کر دیا، جو انہوں نے سوشل میڈیا پر کی تھی اور پہلے واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، حالانکہ وہ پیوٹن کو آمر کہنے سے بھی گریزاں رہے۔ صحافیوں نے جب ان سے زیلنسکی کے بارے میں کیے گئے بیان پر سوال کیا تو ٹرمپ نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں نے یہ کہا تھا؟ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں نے ایسا کہا۔
یہ بیان اس وقت دیا گیا جب زیلنسکی نے ابتدائی طور پر اس معاہدے کو مسترد کر دیا تھا جس کے تحت واشنگٹن کو یوکرین کے قدرتی وسائل، بشمول تیل، گیس، اور نایاب زمینی دھاتوں تک خصوصی رسائی ملنی تھی۔ زیلنسکی نے کسی بھی معاہدے کے لیے امریکہ سے سیکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا، لیکن ٹرمپ نے کوئی یقین دہانی دینے سے انکار کر دیا۔
ٹرمپ، جو ایک ارب پتی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ امریکہ کو ان اربوں ڈالر کی واپسی میں مدد دے گا جو یوکرین کو فوجی اور دیگر امداد کی شکل میں دیے گئے۔ بالآخر زیلنسکی نے نرمی دکھائی اور وائٹ ہاؤس آ کر معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ کو یوکرین کے معدنی وسائل میں حصہ ملے گا۔
ٹرمپ نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہم کھدائی کریں گے یوکرین کے وسائل کے لیے۔ معاہدے کی زیادہ تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، لیکن زیلنسکی نے کہا کہ یہ مزید وسیع معاہدوں کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرے گا۔ زیلنسکی کے مطابق، امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان مزید بات چیت سے سیکیورٹی ضمانتوں کی نوعیت اور اس معاہدے میں شامل مالی رقوم کا تعین کیا جائے گا۔
لیکن ٹرمپ بار بار کسی بھی سیکیورٹی ضمانت دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس، دونوں نے اس جنگ کے خاتمے کی صورت میں امن فوجی دستے بھیجنے کی پیشکش کی ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے امریکہ کی پشت پناہی ضروری ہوگی، جس میں امریکی انٹیلی جنس اور ممکنہ طور پر فضائی قوت شامل ہو۔
جمعرات کو اسٹارمر کے ساتھ ملاقات میں، امریکی صدر نے کہا کہ وہ بہت سی چیزوں کے لیے تیار ہیں لیکن پہلے روس-یوکرین معاہدہ طے کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ معاہدے کی طرف کافی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ یا تو جلد ہو گا، یا بالکل نہیں ہو گا۔
جمعرات کو استنبول میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان نئے مذاکرات ہوئے۔ پیوٹن اور ٹرمپ نے 12 فروری کی فون کال کے بعد ذاتی ملاقات پر اتفاق کیا تھا، لیکن ابھی تک کسی ملاقات کی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
Comments