کراچی میں بدھ کی شام ایک خصوصی تقریب میں معروف پاکستانی فنکار، اسمٰعیل گُل جی کے فن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک نئی نمائش کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر آرٹ سے وابستہ شخصیات، کلیکٹرز، دوست احباب اور خاندان کے افراد نے شرکت کی۔
یہ منفرد جگہ گُل جی کے صاحبزادے، معروف فنکار امین گُل جی کی زیرِ نگرانی دو سال کی محنت کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گُل جی کی 1950 کی دہائی سے لے کر 2007 تک کی تخلیقات کا مستقل کلیکشن موجود ہے، جس میں ان کی پینٹنگز، سنگ لاجورد موزائیک، اسکیچز اور مجسمے شامل ہیں۔
امین گُل جی نے بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ”میں نے 170 سے زائد فن پاروں کو 17 حصوں میں تقسیم کرکے نمائش کے لیے رکھا ہے، جو عجائب گھر کی دو منزلوں پر 13 کمروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔“
افتتاحی تقریب میں شاندار شرکت کو دیکھ کر امین گُل جی نہایت خوش اور جذباتی نظر آئے۔ انہوں نے خاص طور پر اپنی معمار، ثمینہ انجر والا کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس جگہ کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے میں مدد دی، جو اب امین گُل جی گیلری کے ساتھ ایک توسیع شدہ حصہ بن چکا ہے۔
ہر سیکشن میں ایک تفصیلی تحریر شامل ہے جو امین گُل جی نے خود لکھی ہے، جس میں انہوں نے اپنے والد سے جڑی ذاتی یادیں اور واقعات بھی شیئر کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا،”میں نے اپنے والد کی کہانی سنانے کی کوشش کی ہے، اور میرے لیے یہ ایک نہایت ذاتی تجربہ تھا۔“
اسمٰعیل گُل جی پیشہ ورانہ طور پر ایک انجینئر تھے، انہوں نے 1947 میں کولمبیا یونیورسٹی اور 1948 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
گریجویٹ تعلیم کے دوران امریکہ میں رہتے ہوئے، وہ اپنے طور پر آرٹ سیکھتے رہے اور نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ اور بوسٹن کے میوزیم آف فائن آرٹس میں گھنٹوں گزارتے۔ ان کے پسندیدہ مصور ویلازکویز اور ریمبرانڈٹ تھے، جیسا کہ امین گُل جی نے بتایا۔
عجائب گھر میں گُل جی کی نایاب تصویری یادداشتیں بھی شامل کی گئی ہیں، جن میں انہیں پاکستان کے ابتدائی دنوں کے مناظر دیکھتے اور عالمی شخصیات کو اپنے فن کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں فرانسیسی صدر شارل ڈیگال، بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی شامل ہیں۔
مزید برآں، نمائش میں گُل جی کے انٹرویوز کی ویڈیوز بھی شامل ہیں، جن میں وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، ایک مخصوص کمرہ بھی تیار کیا گیا ہے جہاں اسمٰعیل گُل جی کام کیا کرتے تھے۔ وہاں ان کے برش، پیلیٹ نائف اور دیگر آرٹ میٹریلز بالکل ویسے ہی رکھے گئے ہیں، جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے، اور امین گُل جی نے انہیں جوں کا توں محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیئٹرا ڈورا(پرچین کاری)
پیئٹرا ڈورا – ایک ایسی تکنیک جس میں مختلف پتھروں کو انتہائی مہارت کے ساتھ تراش کر آپس میں جوڑا جاتا ہے – وہ ایک میڈیم تھا جس کے ساتھ گُل جی کو خاص نسبت حاصل تھی۔
سترہویں صدی میں، موزائیک کی اس تکنیک کو مغلیہ ہندوستان میں نئے سرے سے ترتیب دیا گیا اور اسے ”پرچین کاری“ کا نام دیا گیا۔
تاج محل کی سنگِ مرمر کی دیواریں، جو 1631 میں پانچویں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے حکم پر بنائی گئیں، اس تکنیک کی شاندار مثال ہیں۔ ان دیواروں کو جیڈ، کارنیلین، سنگ لاجورد اور دیگر قیمتی پتھروں کی مدد سے رنگین پھولوں اور جیومیٹری پر مبنی نقش و نگار سے مزین کیا گیا۔
1957 میں، افغان بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے گُل جی کو تیل کے رنگوں میں اپنا پورٹریٹ بنانے کے لیے مدعو کیا۔ اس کے بعد، گُل جی نے شاہی خاندان کے دیگر افراد کی تصویریں بھی بنائیں اور تقریباً ایک سال کابل میں گزارا۔
افغانستان میں قیام کے دوران، گُل جی نے اپنا پہلا موزائیک ڈیزائن کیا: بادشاہ کا ایک شاہکار پورٹریٹ، جو پیئٹرا ڈورا تکنیک کے تحت مختلف رنگوں کے اونکس اور سنگِ مرمر سے تخلیق کیا گیا۔
1970 کی دہائی میں، گُل جی نے اس تکنیک کو ایک بار پھر اپنایا اور آغا خان سوم سلطان محمد شاہ کا ایک شاندار پورٹریٹ بنایا، جس کی ایک نقل اس نمائش میں موجود ہے۔ اپنے فنی سفر کے دوران، گُل جی نے کئی سربراہانِ مملکت اور شاہی شخصیات کے پورٹریٹ سنگ لاجورد کے ذریعے تخلیق کیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پسندیدہ اور سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے رنگوں میں سے ایک، الٹرا میرین، دراصل سنگ لاجورد سے حاصل کیا جاتا ہے۔
فنکار عدیل الزظفر نے اس نمائش کی ترتیب کو سراہتے ہوئے کہا،”گُل جی نے مرحوم کریم آغا خان چہارم اور ان کے دادا کے شاندار پورٹریٹ تخلیق کیے، جو لاجورد جیسے قیمتی پتھر سے بنائے گئے – یہ پتھر وسطی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔“
انہوں نے مزید کہا، ”میں نے ہمیشہ ان کے فن پاروں کو پرنٹ یا سوشل میڈیا پر دیکھا، لیکن آج انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا میرے لیے ایک ناقابلِ یقین لمحہ ہے۔ ان کے کام کو قریب سے دیکھ کر اس کی نزاکت اور خوبصورتی کا احساس ہوا۔ کوئی بھی تصویر اصل شاہکار کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی۔“
خطاطی
اگرچہ نسخ خط کی ابتدا پہلی صدی میں ہوئی، لیکن یہ چھٹی صدی میں کاتبوں کے ذریعے مقبول ہوا۔
1974 میں، گل جی نے پہلی بار اسلامی متن کے ساتھ کام کیا اور ایک پینٹنگ تخلیق کی جس میں قرآن کی یہ آیت نمایاں کی گئی:
”اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔“
امین اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ گل جی کا ہاتھ کاغذ پر تیزی سے چلتا تھا جب وہ ان گولائی والے حروف میں خطاطی کرتے تھے۔
وہ اکثر یہ قیاس کرتے تھے کہ درختوں کے پتے کی حرکت نے ابتدائی خطاطوں کو عربی رسم الخط کی تخلیق کے لیے متاثر کیا ہوگا، کیونکہ ایک پتا ہوا میں خم کھاتا ہے اور لہراتا ہے، جس سے روانی سے چلنے والی لکیریں بنتی ہیں۔
فنکار عدیل الزظفر نے اس حوالے سے کہا کہ ہر سیکشن کے لیے تخلیقات بہت احتیاط سے چُنی گئی ہیں، اور یہ مکمل ریٹروسپیکٹیو (مکمل دورانیے کی نمائش) بہت عمدہ طریقے سے ترتیب دی گئی ہے، جو سامعین کو اسماعیل گل جی کے فکری عمل کو مختلف پہلوؤں سے جانچنے کا موقع فراہم کرتی ہے – ایک فنکار کے پورے سفر، سرکاری کمیشن شدہ کاموں سے لے کر ان کے ذاتی خیالات اور منتخب موضوعات تک۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا پسندیدہ سیکشن وہ ہے جہاں ان کے تمام برشز کو دکھایا گیا ہے، جو ان کے طویل فنّی سفر کی یاد دلاتے ہیں۔
پاکستان کے معروف مصور جمیل نقش کی بیٹی، مونا نقش نے اس کوشش کو ”کراچی کے لیے ایک تحفہ“ قرار دیا اور کہا کہ یہ شہر کے فنّی منظرنامے میں ایک اہم اضافہ ہے۔
گل جی میوزیم کے حوالے سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس کا مقصد فنکار کے مطالعے کے لیے ایک تعلیمی ذریعہ بننا ہے۔
مستقبل میں، ایک آؤٹ ریچ پروگرام ترتیب دیا جائے گا، جس کے تحت پاکستان کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو گل جی کے عظیم فنّی سفر کی مفت گائیڈڈ ٹورز فراہم کیے جائیں گے۔
میوزیم کی چھت ایک ایسا مقام ہے جہاں پاکستان کی ثقافتی موضوعات پر مذاکراتی نشستیں منعقد کی جا سکیں گی۔
امین گل جی نے مزید کہا کہ میرے والدین کا خواب تھا کہ ان کا گھر ایک دن میوزیم بنے۔ میں واقعی امید کرتا ہوں کہ میں نے ان کے اس وژن کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
Comments