مستحکم پاکستانی روپیہ، ستمبر 2023 سے پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور مہنگائی میں نمایاں کمی ان چند بہترین پیش رفتوں میں شامل ہیں جو گزشتہ سال کے دوران دیکھنے میں آئیں۔ تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مثبت پیش رفت میڈیا میں وہ توجہ حاصل نہ کرسکیں، جس کی وہ مستحق تھیں۔
یہ افسوسناک ہے کہ یہ موضوع مستقل طور پر نمایاں سرخیاں یا بریکنگ نیوز نہیں بنتا، جبکہ معمولی منفی معاشی مسائل کو زیادہ جگہ دی جاتی ہے۔
معاشی ماہرین کہاں غائب ہو گئے ہیں اور وہ حقائق پر بات کرنے اور مفید رہنمائی دینے سے گریزاں کیوں ہیں؟ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کو ابھی اپنے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہے، اور یہ محض آغاز ہے۔
پالیسی سازوں کو معاشی بحران سے جڑے خطرات اور نتائج کا ادراک ہونا چاہیے، کیونکہ اگر ان مسائل کو مناسب طریقے سے حل نہ کیا گیا تو بحران دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے۔سچ پوچھیں تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں مستحکم رہیں گی جب کہ سبزیوں کی قیمتیں اتنی تیزی سے گریں گی۔
مثال کے طور پر، کس نے سوچا تھا کہ مٹر کی قیمت 300 روپے فی کلو سے کم ہو کر 50 روپے فی کلو سے بھی نیچے آجائے گی؟ ٹماٹر کی قیمت 350 روپے فی کلو (بلند ترین سطح) سے کم ہو کر 40 سے 50 روپے فی کلو (ممکنہ کم ترین سطح) تک گر جائے گی؟ یا پھر پیاز، آلو اور بھنڈی سمیت تقریباً تمام دیگر سبزیوں کی قیمتیں ایک سال پہلے کے مقابلے میں نصف ہو جائیں گی؟
پھلوں کی قیمتیں مستحکم اور کم ہوگئی ہیں۔ پٹرول کی قیمت، جو 320 روپے فی لٹر تھی، تقریباً 23 فیصد کم ہوچکی ہے۔ یہ تمام عوامل مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، جو تقریباً 38 فیصد سے کم ہو کر 2.4 فیصد تک آ گئی ہے۔
تاہم یہ یقینی ہے کہ بنیادی شرح پر نظرثانی کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
گزشتہ 18 سے 24 ماہ کے دوران پاکستانی روپیہ دیگر ایشیائی کرنسیوں کے مقابلے میں کافی مستحکم رہا ہے، سوائے ملائیشین رنگٹ اور فلپائنی پیسو کے، جو بحال ہوچکے ہیں۔ اس دوران سازگار اقتصادی حالات نے روپے کی استحکام میں مدد دی ہے۔
مزید برآں، یہ دنیا بھر میں ایک معمول کا عمل ہے کہ مرکزی بینک اپنی کرنسی کی قیاس آرائی اور اتار چڑھاؤ سے حفاظت کے لیے اسے براہ راست خرید و فروخت کرتے ہیں یا فارورڈ ٹریڈنگ اور/یا سواپ سہولیات کے ذریعے لین دین انجام دیتے ہیں۔
مصنف کی رائے میں امریکی ڈالر اور پاکستانی روپے کی برابری کو ابھرتی ہوئی منڈیوں کے مطابق برقرار رکھا جاسکتا ہے تاکہ برآمدات میں مسابقت قائم رہے اور علاقائی کرنسیوں پر بیرونی دباؤ کو مدنظر رکھا جاسکے۔
ادائیگیوں کے توازن اور بیرونی بہاؤ کی حالت بہت کچھ طے کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ایک اطمینان بخش علامت ہے اور اس سے تیل کے بل پر دباؤ کم ہوگا۔
تاہم اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ کو مزید کم ہونے سے روکنا اور اسے مہنگائی کی سطح کے قریب لانا زیادہ مناسب ہوگا لیکن معاشی استحکام برقرار رکھنے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کئی اصلاحی اقدامات درکار ہیں۔ پالیسی ریٹ میں کمی صرف اس وقت قرضوں کے بوجھ میں کمی اور قرض لینے کی لاگت کو کم کرے گی جب قرضوں کی تجدید کی جائے گی۔
تاہم اگر نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں نمایاں اضافہ نہ ہوا تو اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) وہ شعبہ ہے جسے فوری توجہ، ضروری سہولتوں اور مراعات کی ضرورت ہے۔ اس کا جامع جائزہ لیا جانا چاہیے جب کہ زرعی شعبے کی جدید کاری کے لیے بینک قرضوں میں نمایاں اضافہ ناگزیر ہے۔
معیشت کو سب سے زیادہ فائدہ ترسیلات زر سے ہوتا ہے۔ تاہم رعایتوں اور سبسڈی کے باوجود برآمدات کی کمزور کارکردگی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اگرچہ اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) میں اضافہ ظاہر ہورہا ہے، لیکن نجی شعبے کو دیا جانے والا حقیقی قرض اس کے برعکس ہے۔ اسٹیٹ بینک اپنے مانیٹری ٹولز کے ذریعے بینکوں کو اس بات کا پابند بنا سکتا ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) معاشی ترقی کے ہدف کے حصول میں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ معیشت کی بہتری اطمینان بخش ہے، تاہم اس رجحان کو مسلسل نظرثانی اور بہتری کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے طویل المدتی ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں، کیونکہ قلیل اور درمیانی مدت کی کامیابیاں اسے سہارا دینے کے لیے کافی نہیں۔
آخر میں ایک اہم یاد دہانی: مقدس مہینہ رمضان قریب ہے۔ پالیسی سازوں کو ضروری اشیائے خورونوش، بشمول سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں پر سخت نظر رکھنی چاہیے اور مہنگائی کو قابو میں رکھنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ صارفین بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، یعنی رمضان کی اشیاء غیر ضروری طور پر مہنگے داموں خریدنے سے گریز کریں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
(The writer is former Country Treasurer of Chase Manhattan Bank. The views expressed in this article are not necessarily those of the newspaper)
He tweets @asadcmka
Comments