بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلز کے بجلی واجبات 530 ارب روپے تک پہنچ گئے، کیونکہ نہ تو زرعی ٹیوب ویلز اپنے واجبات ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت نے ادائیگی کی ہے۔
باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم زرعی صارفین طویل عرصے سے اپنے واجب الادا حصہ یعنی ماہانہ 10,000 روپے اور 75,000 روپے سے زائد رقم کی ادائیگی نہیں کر رہے، جس کے نتیجے میں ان کے ذمے واجبات بڑھ کر 530 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
نیپرا کے منظور شدہ کنزیومر سروس مینول کے مطابق، کمپنیوں کو نادہندگان کی بجلی منقطع کرنے کی اجازت ہے تاکہ واجبات کی وصولی کی جاسکے اور مزید بقایا جات کے جمع ہونے سے بچا جاسکے۔
اس سلسلے میں کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) نے زرعی صارفین کے لیے بجلی کی فراہمی کے اوقات کم کرکے نرم رویہ اختیار کیا ہے تاہم اس نے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کے درمیان زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کے معاہدے کے تحت زرعی کنکشن منقطع نہیں کیے۔
مزید یہ کہ زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن پر عملدرآمد کے فوراً بعد، جولائی 2024 سے حکومت بلوچستان نے اپنی مقررہ سبسڈی ادا نہیں کی جبکہ سولرائزیشن کے معاہدے میں واضح طور پر ذکر ہے کہ سابقہ معاہدہ سولرائزیشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد ختم ہو جائے گا جو تاحال جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق، اس سے قبل بھی زرعی صارفین کو مختلف ادوار میں تین گھنٹے اضافی بجلی کی فراہمی کے بدلے حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کی جانب سے متفقہ اضافی گرانٹ، یعنی ہر فریق کے ذمے 8 ارب روپے، تاحال واجب الادا ہے۔
بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ڈسکوز میں سے ایک کیسکو نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ سولرائزیشن کا عمل مکمل ہونے تک جی او پی اور جی او بی دونوں کی جانب سے موجودہ فارمولے کے مطابق سبسڈی کی ادائیگی جاری رکھنے کی منظوری کے لئے اس معاملے کو کابینہ میں اٹھائے۔
ڈسکو نے پاور ڈویژن سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت بلوچستان سے بقایا سبسڈی کی جلد ادائیگی کے لیے بات کرے، جو اکتوبر 2024 تک 60 فیصد زرعی سبسڈی کے تحت 56 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ، تین گھنٹے اضافی بجلی کی فراہمی کے بدلے 8 ارب روپے کی وعدہ شدہ گرانٹ کو بھی ترجیحی بنیادوں پر جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے، کیونکہ کمپنی طویل عرصے سے شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اپنے کاروباری معاملات کو رواں رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments