پاکستان میں سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کے مقصد سے ایک نئے قانون نے صحافتی گروہوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو مشتعل کر دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد پریس کی آزادی کو روکنا ہے، انہوں نے آئندہ ہفتے جمعے کو ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔

پارلیمنٹ نے جمعرات کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ ( پیکا) میں ترامیم پیش کیں اور اسے منظور کرلیا گیا۔

پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود ایک مسودے کے مطابق نئے قواعد و ضوابط کے تحت سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کی اپنی تحقیقاتی ایجنسی اور ٹریبونل ہوں گے۔ اس طرح کے ٹریبونلز ’جھوٹی یا جعلی‘ معلومات پھیلانے پر مجرموں پر مقدمہ چلانے اور انہیں 3 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے (7،200 ڈالر) جرمانے کی سزا دے سکیں گے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر جعلی اور جھوٹی خبروں کو روکنے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ حکومت نے اس قانون کو متعارف کرانے سے پہلے کسی صحافتی ادارے سے مشورہ نہیں کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس کا مقصد اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانا اور صحافیوں اور ان کے میڈیا اداروں کو ڈرانا ہے۔

بٹ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہم حکومت کی جانب سے ایسے کسی بھی ٹریبونل کے قیام کے یکطرفہ فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم بھی ضابطوں کے حق میں ہیں، لیکن آپ جانتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی یا پولیس افسر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ جھوٹی یا جعلی خبر کیا ہے۔

پی ایف یو جے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے نئے قانون کے خلاف ملک گیر ریلیاں شروع کرے گی اور اگر اس قانون کو واپس نہیں لیا گیا تو وہ پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیں گے۔

Comments

200 حروف