حکومت ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل، 2024 کی تجویز پیش کر رہی ہے، جس میں رئیل اسٹیٹ، کاریں، بینک اکاؤنٹس اور دیگر معاشی سرگرمیوں کی خریداری پر پابندی کے ساتھ نا اہل شخص کی ایک نئی قسم متعارف کرائی گئی ہے۔ اس مجوزہ قانون نے اسٹیک ہولڈرز میں ہلچل پیدا کردی ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فنانس ڈویژن کے وزرا اس کی وکالت کر رہے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کا پینل اس تجویز کا تنقیدی جائزہ لے رہا ہے۔

کاروباری برادری تقسیم دکھائی دے رہی ہے - کچھ اس بل کی حمایت کرتے ہیں ، جبکہ دیگر اس کے وسیع تر معاشی مضمرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔

اصولی طور پر نان ٹیکس فائلرز کے لئے کوئی کیٹیگری نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم، یہ تصور حکام کی جانب سے فروغ دیا گیا، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کی حکومت کے دوران اس تصور کو فروغ ملا۔ یہ نظام 1990 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا اور 2010 کی دہائی میں نان فائلرز سے مختلف کیٹیگریز میں زیادہ ود ہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) کی شرح کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔

یہ نقطہ نظر بنیادی طور پر ایک واضح معافی ہے جو افراد کو مکمل ٹیکس سے بچنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ قانون کی پیروی نہ کرنے پر معمولی اضافی رقم کے طور پر جرمانہ ادا کریں۔ یہ بات اہم ہے کہ اب پی ایم ایل این کی حکومت اس طریقہ کار کو دوبارہ جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت نان فائلر کیٹیگری برقرار رہے گی اور ٹیکس کی بلند شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس کے بجائے، بل میں ”نااہل شخص“ کے عنوان سے ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی ہے جس میں کچھ معاشی اور کاروباری لین دین پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے، اس تجویز میں سوچ اور متوقع نتائج دونوں میں وضاحت کا فقدان ہے۔

اس بنیادی مسئلے کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ ایف بی آر نان فائلرز سے حاصل ہونے والی بڑی رقم سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں، جبکہ وہ انہیں علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ محاورہ ”جتنا ہضم کرسکتے ہو اتنا ہی لو“ اس صورتحال کو بخوبی بیان کرتا ہے۔ یہ ترمیم فوری طور پر کسی اضافی آمدنی کے حصول کا باعث نہیں بنے گی۔

اس کے بجائے، یہ معاشرتی سطح پر کرپٹ عناصر، بشمول ٹیکس چوروں اور ایف بی آر میں ان کے معاونین کو طاقتور بنانے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ اتھارٹی کا غلط استعمال بڑھنے کی توقع ہے، خاص طور پر جب ایف بی آر کے افسران پر اضافی ٹیکس کی مانگ پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔ موجودہ مفروضہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر فرد اور کاروباری ادارہ ٹیکس چور ہے، اور ایف بی آر کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادا شدہ ٹیکس سے زیادہ ٹیکس وصول کریں۔

ایف بی آر کے افسران کو زیادہ ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، اور وہ اکثر ان اہداف کے حصول کے لیے مشکوک ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر کسی افسر کو یہ لگے کہ ایک ٹیکس دہندہ مکمل طور پر قانون کے مطابق ہے، تو ان کے سینئر افسران اسے نااہلی یا کرپشن سمجھ سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی کیریئر پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔

یہ کلچر قدرتاً بے بنیاد اور جھوٹے مطالبات کے بنانے کو فروغ دیتی ہے جو قانونی فورمز پر کی جانے والی اپیلوں میں آزمائش کا سامنا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

قانونی اصلاحات کو متوازن ہونا ضروری ہے۔ ایف بی آر کے افسران کو بھی غلط کاموں کے معاملات میں جوابدہ اور سزاوار ٹھہرانا چاہیے۔ یکطرفہ اقدامات صرف ایف بی آر کے اندر زیادہ وصولی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا باعث بنیں گے۔ مزید برآں، اس طرح کی پالیسیوں سے ٹیکس وصولی میں نمایاں اضافہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔

جیسا کہ ایف بی آر کے چیئرمین نے تسلیم کیا ہے کہ 2024 میں ٹیکس وصولیوں کی سطح 2008 یا 2016 کے مقابلے میں کم و بیش ایک جیسی ہے، حالانکہ انکم اور سیلز ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ سست رفتار ترقی مزید افراد اور کاروباری اداروں کو رسمی ٹیکس نظام سے باہر لے آئی ہے جس کا ثبوت گزشتہ دہائی میں کرنسی کی گردش میں تیزی سے اضافہ ہے۔

دریں اثنا، کم ٹیکس یا غیر ٹیکس شدہ شعبوں سے ٹیکس وصولی بدستور کم ہے۔ مثال کے طور پر، رئیل اسٹیٹ مارکیٹ زیادہ ٹیکسوں اور ویلیو ایشن سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں کم ہوئی ہیں اور اس شعبے سے ٹیکس کی آمدنی میں کمی آئی ہے، اس کے جواب میں ایف بی آر نے بعض علاقوں میں ویلیو ایشن ٹیبلز پر نظر ثانی کی ہے جہاں ٹرانزیکشنز کی بحالی کے اشارے ملے ہیں۔

رئیل اسٹیٹ بغیر ٹیکس کے پیسے پارک کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اگرچہ ایف بی آر اس عمل کو روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسروں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ نئے اور سخت اقدامات سرمائے کی منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں، جو پہلے ہی 2022 اور 2023 میں کرنسی کے عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔

اس طرح کے قوانین کے دور رس معاشی مضمرات ہوسکتے ہیں جن پر مناسب طور پر غور نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات متعارف کرانے سے قبل ایف بی آر کی استعداد کار بڑھانے اور بدعنوانی سے نمٹنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ان بنیادی اصلاحات کے بغیر، مجوزہ قانون کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف