عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور صحت کے حکام نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ حماس کو ہدف بنانے کیلئے کیے گئے اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شمالی غزہ کے ایک بڑے اسپتال کو بند کردیا گیا ہے اور اس کے ڈائریکٹر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

فلسطینی علاقے کے صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ کمال ادوان اسپتال پر حملے نے اس طبی سہولت کو ”ناکارہ“ بنا دیا ہے جس سے غزہ میں صحت کا سنگین بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں شمالی غزہ میں صحت کی آخری بڑی سہولت خدمات سے محروم ہو گئی ہے۔

ایکس پر ایک بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ “ابتدائی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ حملے کے دوران آگ لگنے سے کچھ اہم محکمے بری طرح جل گئے اور تباہ ہو گئے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ 60 ہیلتھ ورکرز اور 25 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے جن میں سے کچھ وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ درمیانے درجے سے سنگین حالت میں متبلا مریضوں کو تباہ شدہ اور غیر فعال انڈونیشیائی اسپتال منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فورسز نے کمال ادوان کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ کو طبی عملے کے متعدد ارکان کے ساتھ حراست میں لے لیا ہے۔

اے ایف پی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے کہ آیا ابو صفیہ کو حراست میں لیا گیا ہے یا نہیں، لیکن اس تک پہنچنے کی متعدد کوششیں ناکام رہیں۔

غزہ کے شہری دفاع کے ادارے کا کہنا ہے کہ ابو صفیہ کو شمالی غزہ کے میں اس کے سربراہ احمد حسن الکاہلوت سمیت حراست میں لیا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے ان گرفتاریوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اسپتال سے نکالے گئے غزہ کے ایک شہری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر کچھ افراد سے حماس کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔

محمد نے بتایا کہ جیسے ہی ہم باہر نکلنے لگے، فوج نے تمام نوجوانوں کو اپنے کپڑے اتارنے اور اسپتال سے باہر جانے کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجی دسیوں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور مریضوں کو ایک نامعلوم مقام پر لے گئے، نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی گئی، ان سے جنگجوؤں، حماس اور ہتھیاروں کے بارے میں پوچھا گیا۔

جبالیہ کے ایک رہائشی عمار البرش نے کہا کہ کمال ادوان اور اس کے گردونواح پر حملے کے نتیجے میں علاقے کے درجنوں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

50 سالہ عمار البرش نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ صورتحال تباہ کن ہے، شمال میں کوئی طبی خدمات، کوئی ایمبولینس اور کوئی شہری دفاع نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کمال ادوان اسپتال اور آس پاس کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے اور ہم اسرائیلی ڈرونز اور توپ خانے کی گولہ باری سے فائرنگ کی آوازیں سن رہے ہیں۔

’گھناؤنا جرم‘

حملے سے پہلے کے دنوں میں ابو صفیہ نے بار بار اسپتال کی غیر یقینی صورتحال کے بارے میں متنبہ کیا تھا اور اسرائیلی فورسز پر اسپتال کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا تھا۔

پیر کے روز انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ اسپتال کو نشانہ بنا رہا ہے جس کا مقصد ’اندر موجود لوگوں کو ہلاک کرنا اور زبردستی بے دخل کرنا ہے۔

چھ اکتوبر سے اسرائیل نے شمالی غزہ میں اپنی زمینی اور فضائی کارروائیاں تیز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد حماس کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنا ہے۔

اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز کہا تھا کہ وہ اسپتال کے آس پاس کے علاقوں میں ’دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے اور کارندوں‘ کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہے۔

اسپتال کے قریب تازہ ترین آپریشن شروع کرنے سے پہلے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کے فوجیوں نے شہریوں، مریضوں اور طبی عملے کے محفوظ انخلاء میں سہولت فراہم کی ہے۔

حماس نے ان دعووں کی تردید کی ہے کہ اس کے جنگجو اسپتال میں موجود تھے۔

حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسپتال کے بارے میں دشمن کے جھوٹ کا مقصد قابض فوج کی جانب سے آج کیے گئے گھناؤنے جرم کا جواز پیش کرنا ہے، جس میں قتل عام اور جبری نقل مکانی کے منصوبے کے تحت اسپتال کے تمام شعبوں کو خالی کرنا اور جلانا شامل ہے۔ اس سے قبل غزہ کی وزارت صحت نے ابو صفیہ کے حوالے سے بتایا تھا کہ فوج نے اسپتال میں موجود سرجری کے تمام شعبوں کو آگ لگا دی ہے۔

وزارت صحت کے مطابق حملے کے نتیجے میں طبی عملے سمیت اسپتال میں موجود بڑی تعداد میں مریض اور شہری زخمی ہوئے ہیں۔

’سزائے موت‘

حماس کی حمایت کرنے والے ایران نے اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی سنگین خلاف ورزیوں کی تازہ ترین مثال قرار دیا ہے۔

اسرائیلی فوج باقاعدگی سے حماس پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ جنگ کے دوران اپنی افواج کے خلاف حملوں کے لیے اسپتالوں کو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔

حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کمال ادوان اسپتال پر یہ حملہ اس کے بعد ہوا ہے جب اکتوبر کے آغاز سے ہی ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں کے لیے رسائی پر پابندیاں بڑھا دی گئی تھیں اور اسپتال یا اس کے قریب مسلسل حملے کیے جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں صحت کے نظام کو منظم طریقے سے ختم کرنا ان ہزاروں فلسطینیوں کے لیے سزائے موت کے مترادف ہے جنہیں صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا حماس کے میڈیا سینٹر نے شمالی غزہ میں بیت حنون میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فضائی اور توپ خانے کے حملوں کی اطلاع دی ہے۔

Comments

200 حروف