گہرے سمندروں میں تارکین وطن کی زندگیوں کے ضیاع کا المیہ ایک افسوس ناک حقیقت بن چکا ہے اور یہ واقعات بار بار پیش آرہے ہیں۔ جون 2023 میں یونان کے جنوب مغربی ساحلی قصبے پیلوس کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں تارکین وطن سے بھری کشتی غرقاب ہونے سے سینکڑوں تارکین وطن ڈوب گئے تھے۔

کشتی میں کم از کم 209 پاکستانی سوار تھے۔ اسی سال اپریل میں مغربی لیبیا کے مختلف قصبوں میں بحیرہ روم میں تارکین وطن کی دو کشتیاں ڈوبنے کے سبب موت کی نیند سونے والے 100 افراد میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ اس سے قبل فروری 2023 میں جنوبی اطالوی ساحل پر تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی چٹانوں سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں 59 افراد ابدی نیند سوگئے۔

رواں برس 14 دسمبر کی رات کو جو واقعہ پیش آیا وہ ان سانحات کا تسلسل ہے جس میں کئی پاکستانیوں کی جانیں یونان میں ایک کشتی کے الٹنے کے واقعے میں گئیں۔ اس سانحے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 40 تک پہنچ گئی، جب یونانی حکام کی جانب سے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی کوششیں، جن میں 35 لاپتہ پاکستانی شامل تھے، بدھ کے روز کامیاب نہ ہو سکیں؛ جبکہ 47 پاکستانیوں کو یونانی ساحلی حکام نے بچا لیا۔

پاکستانی حکومت کا اس سانحے پر ردعمل زیادہ تر دکھاوے کا ہے جس میں حکومتی سربراہ کی طرف سے تحقیقات اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن تحقیقات یا سخت کارروائی کے نتائج کبھی سامنے نہیں آتے اور اس طرح ایک سانحہ کے بعد دوسرا بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت اس سانحے کو محض انسانی اسمگلنگ کے ایک واقعے کے طور پر دیکھتی ہے جو ملک کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس یہ سانحات ملک کی شبیہ سے کہیں زیادہ انسانوں کی تقدیر سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج تک اس مسئلے کی وجوہات پر سنجیدہ تحقیق نہیں کی گئی ہے جس میں اتنے زیادہ نوجوان اس سرزمین کے بیٹے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر غیر ملکی زمینوں پر بہتر زندگی کے لیے نکل پڑتے ہیں اور یہ کہ اس رجحان کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہییں۔

14 دسمبر کے اس سانحے کے ایک زندہ بچ جانے والے کا ریکارڈ شدہ بیان اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے جو ان بدقسمت تارکین وطن کیلئے سچ ثابت ہوتی ہے۔ انگلیاں اس بات پر اُٹھ رہی ہیں کہ حکومت اس سرزمین کے نوجوانوں کو اپنے وطن میں عزت سے جینے کے لیے سازگار حالات فراہم کرنے میں ناکامی رہی ہے۔

14 دسمبر کے سانحے کے ایک زندہ بچ جانے والے حسن علی کی اپنی کہانی ہے۔ جب وہ بحیرہ روم کے سرد پانیوں میں گر گئے، تو انہوں نے اپنی دو بچوں کے بارے میں سوچا – ان کی مسکراہٹیں، ان کے گلے لگانے کے لمحات اور ان کے مستقبل کے لیے ان کی امیدیں۔

پھر انہیں پاکستان کے پنجاب کے اپنے چھوٹے سے گاؤں کے دیگر لوگوں کا خیال آیا جو یورپ پہنچنے کا خواب دیکھ رہے تھے، اور وہ سوچنے لگے کہ کیا انہوں نے بھی اپنے آخری لمحے میں سمندر کی سیاہ گھاٹ میں غرق ہونے سے پہلے اپنے گھر اور اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے لوگوں کے بارے میں سوچا تھا۔ تیراکی سے نابلد حسن علی کہتے ہیں کہ انہیں یقین تھا کہ وہ ڈوب کر مر جائیں گے۔ پھر انہیں اپنے پاس ایک رسی محسوس ہوئی جو مرچنٹ نیوی کے جہاز سے پھینکی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی بچانے کیلئے اسے پکڑ لیا۔

حسن علی کو ہفتہ 14 دسمبر کی صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں یونان کے جزیرے کریٹ کے قریب سب سے پہلے بچایا گیا۔ اس کے بعد کئی دیگر افراد کو بچایا گیا، اس دو دن کے ریسکیو آپریشن میں 9 جہازوں نے حصہ لیا، جن میں یونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز، مرچنٹ نیوی کے جہاز اور ہیلی کاپٹر شامل تھے۔

حسن کا سفر تقریباً تین ماہ قبل شروع ہوا تھا جب 23 سالہ حسن نے اپنی بیوی اور دو چھوٹے بیٹوں کو گجرات کے ایک بڑے صنعتی شہر کے قریب اپنے گاؤں میں چھوڑا۔ پانچ بہن بھائیوں میں سے تیسرے نمبر پر ہونے کے ناطے، وہ تعمیراتی مقامات پر اسٹیل فکسنگ کا کام کرتا تھا، جس سے وہ ماہانہ 42,000 روپے (150 ڈالر) کماتا تھا، بشرطیکہ وہ 10 سے 12 گھنٹے روزانہ اور ہفتے کے ساتوں دن کام کرتا۔ مگر خواہ وہ کتنی محنت کرے اس کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا کیونکہ ضروری اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ میرا بجلی کا بل 15,000 روپے (54 ڈالر) سے لے کر 18,000 روپے (64 ڈالر) تک آتا تھا۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے لیے، جن میں والدین اور دو چھوٹے بہن بھائی شامل ہیں، کریانے ک خرچ بھی تقریبا اتنا ہی تھا۔

حسن کو اکثر ماہ کے آخر میں چھوٹے قرضے لینے پڑتے تھے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکے اور وہ ہمیشہ اس بات سے پریشان رہتا تھا کہ اگر کسی ایمرجنسی کی صورت میں، جیسے کہ خاندان میں بیماری، کچھ ہوجائے تو کیا ہوگا۔

حسن کے اہلخانہ نے ان کے اس بدقسمت سفر سے متعلق پیسے جوڑنے کیلئے پیسے ماں کے زیورات اور زمین کا ایک ٹکرا فروخت کیا۔

اسی طرح کی کہانیاں دوسرے تارکین وطن پاکستانیوں کی بھی ہیں۔ کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ کچھ ناکام۔ اس سفر کے دوران انہیں دھوکہ دہی اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں متعدد اسمگلروں کے ہاتھوں ان پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔

اس ملک کے نوجوانوں کی سمندری راستوں پر اموات کو صرف انسانی اسمگلنگ اور ملک کی بدنامی کے طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا؛ یہ حکومت کی ناکامی کی داستان ہے جو اپنے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس کے علاوہ، معاشرے میں موجود اشرافیہ کو اس بات سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہمارے اقتصادی اور سماجی انصاف کے نظام میں وسیع عدم مساوات سے فائدہ اٹھانے والے اور سہولت کار ہیں، خاص طور پر وسائل کی تقسیم کے حوالے سے، جس کی وجہ سے معاشرے کے نچلے طبقے کے لیے بہت کم وسائل بچتے ہیں۔ زیادہ بجلی کے بل، مہنگائی، اقتصادی سست روی اور سماجی تفاوت وہ مسائل نہیں ہیں جو نچلے یا سب سے نچلے طبقے نے پیدا کیے ہیں یہ مسائل اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کا ماڈل ناقابلِ برداشت ہے جہاں ملک کے ماہرین اور ہنر مند افراد کو اپنے ملک میں کوئی جگہ نہیں ملتی اور انہیں بہتر زندگی کے لیے غیر ملکی سرزمین پر نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔

Comments

200 حروف