صدر آصف علی زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024 (مدارس کی رجسٹریشن) پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں، لہٰذا نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون سازی کے نتیجے میں پاکستان کی عالمی مالیاتی درجہ بندی، خاص طور پر مالیاتی ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جیسے اداروں کے سامنے، منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق موجودہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مملکت نے نشاندہی کی کہ نیا قانون غیر ضروری ہے کیونکہ دو قوانین پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ٹرسٹ ایکٹ 2020 پہلے سے موجود ہیں۔

صدر مملکت نے متنبہ کیا کہ اس قانون کے تحت مدارس کو رجسٹر کرنے سے فرقہ واریت کو فروغ مل سکتا ہے اور ایک ہی معاشرے کے اندر متعدد مدرسوں کی تعمیر کی وجہ سے امن و امان میں خلل پڑ سکتا ہے۔

مزید برآں، اس طرح کا رجسٹریشن سسٹم مفادات کے ٹکراؤ کا باعث بن سکتا ہے اور عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن سکتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر ایف اے ٹی ایف جیسی تنظیموں کی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی متاثر ہوسکتی ہے۔

صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ اگر بل قانون بن جاتا ہے تو ایف اے ٹی ایف جیسی بین الاقوامی تنظیمیں اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کا اطلاق اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے لیکن بل میں صرف اسلام آباد میں اس کے اطلاق سے متعلق کوئی شق شامل نہیں ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مدرسوں کو معاشرے کے طور پر رجسٹر کرنے سے انہیں تعلیم کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صدر نے بل کی مختلف شقوں میں مدرسے کی تعریف میں تضادات کی نشاندہی کی۔

صدر نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ”مدرسہ“ کی اصطلاح 1860 کے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے پیش لفظ میں شامل نہیں ہے، جس سے نئے بل میں مدارس کی تعلیم کو شامل کرنے کے ساتھ تضاد پیدا ہوگا۔

صدر نے اعتراض میں کہا کہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 میں دینی تعلیم داخل نہیں ہے، فائن آرٹ تعلیم داخل ہے، دینی تعلیم اور فائن آرٹ رکھتے ہیں تو تنازع ہوگا اور سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ سے مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کا تنازع ہوسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزارت تعلیم صوبوں میں تحلیل کردی گئی ہے اور دینی مدارس کی رجسٹریشن وفاقی حکومت کا نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے۔

ذرائع کے مطابق مدارس صوبوں کی وزارت تعلیم کے ماتحت ہیں، ان کی رجسٹریشن صوبائی معاملہ ہے اور اسلام آباد میں بھی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے دو قوانین موجود ہیں۔ لہٰذا قانون اور آئین کے مطابق بل پر دستخط نہیں کیے جا سکتے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف